خیبر صهیون تحقیقاتی ویب گاه



امریکہ کے ذریعے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد، اسرائیل نے ابتدا میں اس اقدام کی تعریف کی اور امریکہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ لیکن ایران میں محسن رضائی کے ٹویٹ، دیگر فوجی افراد کے تبصروں اور صہیونی ریاست کو دھمکی دئیے جانے کے بعد، صہیونی وزرا نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے کینسٹ کی مٹینگ میں کہا ہے:قاسم سلیمانی کا قتل اسرائیلی کاروائی نہیں بلکہ امریکی کاروائی تھی اور اس کا ہمارے ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن کیا حقیقت میں اسرائیل کا قاسم سلیمانی کے قتل میں کوئی کردار نہیں تھا؟

سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ، قومی سلامتی کمیٹی کے ترجمان ، سردار سعید قاسمی اور سید ہادی برہانی نیز دیگر ایرانی اسکالرز نے شہید قاسم سلیمانی کے قتل میں اسرائیل کے کردار کا جائزہ لیا۔ لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں جنرل سلیمانی کے قتل کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو ایران کے خلاف جنگ بھڑکانے کی تمنا رکھنے والے یہودی عناصر کے اکسانے پر مبنی قرار دیا ہے جن میں ان کے داماد کوشنر بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب سے موساد کے سابق نائب سربراہ "رام بن باراک" نے اس بارے میں اسرائیلی فوجی ریڈیو سے کہا:
"سلیمانی کا قتل اسی منصوبہ بند پیمانے پر ہے جس پر اسرائیل نے 2008 میں عماد مغنیہ کا قتل کیا تھا۔"
در حقیقت یہ ٹارگٹ کلنگ، اگرچہ ایک امریکی عمل تھا، لیکن اس کا فیصلہ اسرائیل کی جانب سے لیا گیا تھا۔ اس لیے کہ اس کارروائی سے سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ لیکن مغربی ایشین خطے میں، داعش کے خاتمے اور عراق میں داخلی صورتحال کی ناکامی کے بعد امریکی صورتحال متزل اور زوال پذیر رہی ہے، لہذا ایسے حال میں ایسی کاروائی یقینی طور پر اس رجیم کے فائدے میں نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس قتل نے خطے میں اس کے اخراجات میں بھی اضافہ کیا اور دوسری طرف امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی ی پوزیشن کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔

202


این متن دومین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

زکات علم، نشر آن است. هر وبلاگ می تواند پایگاهی برای نشر علم و دانش باشد. بهره برداری علمی از وبلاگ ها نقش بسزایی در تولید محتوای مفید فارسی در اینترنت خواهد داشت. انتشار جزوات و متون درسی، یافته های تحقیقی و مقالات علمی از جمله کاربردهای علمی قابل تصور برای ,بلاگ ها است.

همچنین وبلاگ نویسی یکی از موثرترین شیوه های نوین اطلاع رسانی است و در جهان کم نیستند وبلاگ هایی که با رسانه های رسمی خبری رقابت می کنند. در بعد کسب و کار نیز، روز به روز بر تعداد شرکت هایی که اطلاع رسانی محصولات، خدمات و رویدادهای خود را از طریق بلاگ انجام می دهند افزوده می شود.


این متن اولین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

مرد خردمند هنر پیشه را، عمر دو بایست در این روزگار، تا به یکی تجربه اندوختن، با دگری تجربه بردن به کار!

اگر همه ما تجربیات مفید خود را در اختیار دیگران قرار دهیم همه خواهند توانست با انتخاب ها و تصمیم های درست تر، استفاده بهتری از وقت و عمر خود داشته باشند.

همچنین گاهی هدف از نوشتن ترویج نظرات و دیدگاه های شخصی نویسنده یا ابراز احساسات و عواطف اوست. برخی هم انتشار نظرات خود را فرصتی برای نقد و ارزیابی آن می دانند. البته بدیهی است کسانی که دیدگاه های خود را در قالب هنر بیان می کنند، تاثیر بیشتری بر محیط پیرامون خود می گذارند.


دشمنوں نے الحاج قاسم سلیمانی کو شہید کر کے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ اگرچہ وہ اس شخص کی فراست اور ذہانت سے جان چھڑانا چاہتے تھے، لیکن ان کا یہ اقدام انتہائی غلط تھا۔ کیونکہ وہ شہادت کے مفہوم کو نہیں سمجھتے تھے، اور اگر وہ اس عظیم مفہوم کو سمجھتے تو اسلامی مجاہدین کو شہید نہیں کرتے۔
خداوند متعال کے حکم کے مطابق شہید "زندہ" ہے ۔ خدا فرماتا ہے: "«وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء.»(۱) جو راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ البتہ ہم نے بھی لفظ ’’احیاء‘‘ کو اچھے سے درک نہیں کیا۔ لہذا ہمیشہ ’’بل احیاء‘‘ کے حوالے سے ایک مبہم تصویر ہمارے ذہنوں میں رہتی ہے۔ اگر یہ مفہوم قابل ادراک نہ ہوتا تو خداوند متعال اتنی واضح گفتگو نہ کرتا۔ حیات کا تصور تو ہمارے نزدیک معین ہے جو خداوند عالم فرماتا ہے کہ شہداء زندہ ہیں۔ اور «عِندَ رَبِّهِم یُرزَقونَ» (۲) اپنے پروردگار کے نزدیک رزق پاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے ہر کوئی خدا کی بارگاہ سے رزق حاصل نہیں کرتا؟ ہم سب بھی تو اپنے رب کا رزق کھاتے ہیں۔ «وَ مَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا» (۳) امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں ’’عالم خدا کے حضور میں ہے، خدا کے حضور میں گناہ نہ کرو‘‘۔ خدا کے حضور کا مطلب یہی ہے کہ ہم سب ’’عند اللہ‘‘ موجود ہیں۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء کی تفسیر
خداوند عالم کا یہ فرمان کہ شہداء زندہ ہیں کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شہداء جسمانی اعتبار سے زندہ ہیں؟ یا ان کی روح زندہ ہے؟ اگر خداوند عالم کے اس کلام سے شہداء کا جسم مراد ہے تو یہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ بہت سارے شہداء کے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ بدن کا کوئی حصہ باتی نہیں رہتا کہ زندگی کا تصور کیا جا سکے۔ مجھے یاد ہے جنگ کے دوران جب شہیدوں کے پاس گولے پڑتے تھے تو ان کا بدن اس قدر ٹکڑے ٹکڑے ہوتا تھا کہ جمع کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر مراد شہیدوں کی روح ہے، روح تو سب کی زندہ رہتی ہے، مگر جو شہید نہیں ہوتے ان کی روحیں مر جاتی ہیں؟ روح کو تو موت نہیں آتی۔ عالم برزخ ارواح کی زندگی کا عالم ہے روح کو موت نہیں آتی۔
پس شہداء کو سا امتیاز حاصل ہے جو خداوند عالم کے پیش نظر ہے؟ خداوند عالم یہ بھی فرما سکتا تھا کہ شہید کی روح ایک خاص طرح کی زندگی کی حامل ہے۔ زندہ اور مردہ شخص میں فرق یہ ہے کہ زندہ افراد تاثیر گزار ہوتے ہیں لیکن مردہ نہ موثر ہوتے ہیں نہ متاثر۔ تاثیر و تاثر در حقیقت روح سے متعلق ہے۔ لیکن اس دنیا میں اگر کوئی روح موثر واقع ہونا چاہے تو اسے جسم کی ضرورت ہے، جب تک جسم اس کے اختیار میں رہتا ہے کہ روح موثر و متاثر واقع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جہاد اس وقت ممکن ہے جب انسان کا بدن اس کے اختیار میں ہو۔
جب بدن انسان سے چھن جائے تو اس انسان کی کوئی تاثیر باقی نہیں رہتی۔ لہذا زندہ وہ ہے جو کوئی موثر اقدام انجام دے۔ اور مردہ وہ ہے جو کوئی اقدام نہ کر سکے کوئی تاثیر نہ دکھا سکے۔ عام لوگوں کا تصور یہ ہے کہ جو اپنی موت مرتا ہے اس میں اور جو راہ خدا میں شہید ہوتا ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس نظریہ کے مطابق، عام انسانوں جو فطری موت مرتے ہیں اور شہداء جیسے شہید بہشتی، شہید مطہری اور شہید قاسم سلیمانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
خداوند عالم اس فرق کو واضح کرنے کے لیے شہیدوں کو زندہ کہتا ہے۔ وہ شخص جس نے راہ خدا میں جہاد کیا اور اپنے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا وہ دوسروں کی طرح نہیں ہے، یعنی وہ شہادت کے بعد بھی اثرانداز ہوتا ہے اگر چہ شہید نے اپنا جسم راہ خدا میں دے دیا لیکن خدا اسے ایسا رزق دیتا ہے جس رزق کے واسطے وہ کائنات پر موثر واقع ہوتا ہے۔
ہم اسی وجہ سے قائل ہیں کہ دشمن نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے امریکیوں نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں، دشمن نے ملت اسلام اور اسلامی نظام پر بہت کڑی ضربت لگانے کی کوشش کی ہے لیکن جو افراد اس دوران شہید ہوئے ہیں وہ حقیقت میں مرے نہیں ہیں۔
اگر چہ دشمن یہ تصور کر رہا ہے کہ شہید بہشتی، شہید رجائی کو امت اسلامیہ سے چھین لیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ دشمن نے اپنی ان حرکتوں سے اسلام کی خدمت کی ہے۔
دوسرے لفظوں میں شہید اپنی شہادتوں سے قبل، جو مجاہدت کرتے ہیں جو خدمات انجام دیتے ہیں وہ اپنے معمولی بدن اور مادی آلات کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ یعنی ضروری ہے کہ قاسم سلیمانی مادی آلات کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کریں چونکہ جسم محدود ہے۔
جب دشمن قاسم سلیمانی کے جسم کو مٹاتا ہے تو سوچتا ہے کہ اسے مٹا دیا گیا، لیکن قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق، قاسم سلیمانی زندہ ہیں اور اس رزق کے واسطے جو خداوند عالم کی طرف سے انہیں مل رہا ہے اس دنیا میں سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں بغیر اس کے کہ انہیں کسی بدن کی ضرورت پڑے۔
دشمن نے آپ کو شہید کر کے یہ سوچا کہ اس اقدام سے وہ اس عظیم مرد سے محفوظ ہو جائے گا، لیکن دشمن کے اس اقدام کا نتیجہ الٹا ہو گیا، اور بہت ساری کامیابیاں اسلام کو نصیب ہوئی ہیں۔ لہذا بغیر کسی شک و شبہہ کے قاسم سلیمانی کی شہادت انقلاب، اسلام اور مظلومین عالم کی کامیابی میں بے حد موثر واقع ہو گی۔

 



کتاب ھذا یہودیت اور صہیونیزم کی ابتداء سے حال تک کی جامع تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں تمام مطالب مستند اور عمیق ہونے کے علاوہ نایاب تصویروں کے ساتھ تحریر کئے گئے ہیں جس سے قارئین کو اس کتاب کے مطالب کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے علاوہ اس کے مطالعہ سے دلچسبی بھی ملتی ہے۔ اس کتاب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موضوع پر مکمل اور جامع نگاہ کی گئی ہے یعنی مولفین نے یہودیت کی پیدائش سے لے کر عصر حاضر تک کے تمام واقعات و حالات کو تصویروں کے ساتھ اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کتاب کے پہلے حصے کا نام ’’بنی اسرائیل سے اسرائیل تک‘‘ ہے اس دوران کے یہودیوں سے متعلق تمام باتیں جو آپ جاننا چاہیں کتاب کے اس حصے میں موجود ہیں۔ یہ حصہ حضرت ابراہیم کے دور سے شروع ہوتا ہے اور ۴۵ صفحوں میں یہودیت کی تاریخ کو بیان کرنے کے بعد تیس صفحوں میں یہودیوں کی مقدس کتابوں کے بارے میں بیان کرتا ہے۔
اس کتاب کی دوسری فصل ’’شریعت‘‘ یعنی دین یہود کے بعض احکام جیسے حرام کھانے، غسل، روزہ، صدقہ، نماز، کھانا پکانے کی ترکیبیں، یہودی اور ان کا خون، نجاست سے آلودہ افراد کو دور کرنا وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد کی فصل میں آداب و رسوم کا تذکرہ ہے۔ عیدوں کی قسمیں، پہلے بیٹے کا معبد کو ہدیہ کرنا، شادی بیاہ کی رسومات، دعاؤوں کی قسمیں وغیرہ۔۔۔ یہودیوں کی یہ وہ رسومات ہیں جن کے بارے میں جاننا انسان کے لئے دلچسبی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے کئی مرتبہ فلموں میں یہودیوں کو دیوار کی طرف مڑ کر دعا کرتے دیکھا ہے لیکن کیوں اور کیسے سے ہمیں خبر نہیں۔
اس کتاب کی اگلی فصل عرفان سے متعلق ہے عرفان کی قسموں مخصوصا ’’کابالا‘‘ کو مستند طریقے سے تصویروں کے ہمراہ مورد بحث قرار دیا گیا ہے۔ یہودی فرقوں، بین الاقوامی سطح پر یہودیوں کا ی اور اقتصادی نفوذ بھی پہلے حصے کی آخری فصلوں میں شامل ہے۔


کتاب ھذا کا دوسرا حصہ صہیونی رژیم کی تاریخ اور بناوٹ کا عنوان رکھتا ہے۔ ی نظام، اقتصادی نظام، تعلیمی نظام، عسکری اور سکیورٹی نظام اور یہودیوں کی اہم شخصیات اس حصے کی فصلوں میں شامل ہیں۔ ان فصلوں کے مطالعہ سے اسرائیل کے پوشیدہ پیچ و خم اور اس کی بناوٹ کے بارے میں عجیب و غریب معلومات انسان کو ملتی ہیں۔ خاص طور پر جب آپ تعلیمی نظام کا مطالعہ کرتے ہیں تو صہیونی رژیم کے اسکولوں میں بچوں کو کس چیز کی تعلیم دی جانا چاہئے اور انہیں کیسے تربیت کیا جانا چاہیے اس کے بارے میں جان کر آپ کو بہت حیرانگی ہو گی۔
اس کتاب کا آخری حصہ ’’ایران اور صہیونیزم‘‘ کے بارے میں ہے اور اس کی آخری فصل ہولوکاسٹ پر ختم ہوتی ہے۔

 



 آج ہم ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں بےشمار مشکلات انسان کے دامن گیر ہیں ثقافتی، سماجی، ی اور معیشتی مشکلات نے انسان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تعجب خیز ٹیکنالوجی ترقی کے دور میں انسان کی زندگی کمال اور سعاتمندی کی طرف گامزن ہوتی اور اس راہ میں پائی جانے والے مشکلات کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
سائنسی ترقی نے جہاں انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں الجھاؤ پیدا کئے وہاں معیشتی امور میں بھی اسے بہت ساری مشکلات سے دوچار کیا۔ آج دنیا کا اقتصاد صرف سرمایہ داروں کے اختیار میں ہے اور دنیا پر حاکم ظالم اور ستمگر حکمران پوری دنیا کے انسانوں کی معیشت کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے کر جس طرف چاہتے ہیں انسانی زندگی کی لگام موڑ دیتے ہیں۔
عصر حاضر کے قارون اور فرعون در حقیقت خدا سے مقابلہ کرنے کے لیے معیشی امور میں جس چیز سے کھلے عام فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ ہے ’’ربا اور سود‘‘۔ انہوں نے معیشتی امور میں جس نظام کو سماج میں رائج کیا ہے وہ ہے ’’بینکی نظام‘‘۔ بینکی نظام کا اہم ترین رکن سود اور پرافٹ ہوتا ہے اگر اس رکن کو اس نظام سے نکال دیا جائے تو ان کے بقول بینک بیٹھ جائیں گے اور دنیا کا نظام نہیں چل سکے گا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر بنکوں سے سود کا لین دین ہٹایا جائے اور اسے الہی اور اسلامی طرز کے مطابق تشکیل دیا جائے تو نہ سماج کی ترقی میں کوئی کمی آئے گی اور نہ کمال کی طرف ان کی زندگی کے سفر میں کوئی خلل واقع ہو گا لیکن جو عصر حاضر میں یہودیوں کے ذریعے جو بنکوں کا جو طریقہ کار بنایا ہوا ہے اس نے دنیا کے ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کی زندگیوں کی برکتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے بلکہ انہیں معیشتی امور میں خدا کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
آج پوری دنیا کے ماہرین اقتصاد کا یہ ماننا ہے کہ جس چیز نے انسانی سماج کو بے روزگاری ، مہنگائی اور بدبختی کے موڑ پر لا کر کھڑا کیا ہے وہ ہے عصر حاضر کا بینکنگ سسٹم۔
موسی پیکاک نامی ایک ماہر اقتصاد کا کہنا ہے کہ دنیا کے بین الاقوامی ماہرین اقتصاد معیشتی ترقی کے لیے جس چیز کی تجویز کرتے ہیں وہ ہے سود جبکہ تمام مشکلات کی بنیادی جڑ یہی سود ہے جس کی طرف انسانوں کو متوجہ نہیں کیا جاتا۔
اگر آپ بینکنگ سسٹم پر غور کریں کہ وہ کیسے وجود میں آیا؟ اور اس کے وجود میں لانے والے تھے؟ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نظام میں انسانوں کو کس طرح بیوقوف بنا کر انہیں اپنے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔
بنکوں کے نظام کو وجود میں لانے والے یہودی ہیں۔ یہودیوں نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ۷ سو سال کا عرصہ صرف کر کے ایک مثلث وجود میں لائی جس کا ایک ستون بینک ہیں جو مکمل طور پر سود پر مبتنی ہیں دوسرا ستون اسٹاک مارکٹ ہے اور تیسرا قرضہ اور Loan ہے۔ یہودیوں نے ۷ سو سال لگا کر یورپ کے اندر اس نظام کو حاکم کیا اس کے بعد پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے اس بینکی نظام کے ذریعے سب سے پہلے ان کی معیشت کو اپنے اختیار میں لیا اور ان تین ستونوں کے ذریعے آج یہودی پوری دنیا کی معیشت کو اپنے اختیار میں لینے پر کامیاب ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود کہ قدیم توریت کی شریعت میں دوسرے ادیان و مذاہب کی طرح سود خواری حرام ہے اور سود کھانے والے افراد اخروی عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی سزا کے مستحق ہیں ان پر کفارہ واجب ہے اور انہیں کوڑے مارے جائیں گے لیکن یہودیوں نے جدید توریت میں تحریف کر کے سود خواری کو جائز قرار دے دیا’’ اپنے بھائی سے سود طلب نہ کرو نہ نقد پیسے پر نہ کھانے پر نہ کسی دوسری اس چیز ہر جو قرض دی جاتی ہے۔ صرف غیروں سے قرضے پر سود لے سکتے ہو‘‘ ( کتاب مقدس، عہد قدیم، سفر لاویان، باب ۲۵، آیت ۳۷،۳۸)
اہل سنت کے عالم دین رشید رضا نے اپنے استاد شیخ محمد عبدہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: توریت کی قدیمی نسخوں میں یہ عبارت موجود نہیں تھی کہ تم غیروں سے سود لے سکتے ہو لیکن موجودہ نسخوں میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہودی حتیٰ اپنے بھائیوں پر بھی رحم نہیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے سود لینے کے علاوہ انہیں اپنا غلام بنا کر حتیٰ دوسری قوموں کو بھی بیچ دیتے تھے۔

 


بہت ساری وجوہات ہیں جن کی بنا پر صہیونی ریاست اپنے زوال سے خوفزدہ ہے، ان وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ صہیونیوں نے شیطان کے دل میں بسیرا ڈالا ہے۔ یعنی اس غاصب اور طفل کش ریاست کی جڑیں شیطان کے وجود سے پھوٹتی ہیں اسی وجہ سے یہ شیطانی ریاست قائم و دائم نہیں رہ سکتی اور ہمیشہ ایک خدائی طاقت اس کے مقابلے میں موجود ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، نابودی کا خوف، ایک اہم چیلنج ہے جو ہمیشہ یہودی قوم اور صہیونی ریاست کو دھمکا رہا ہے۔ موجودہ دور میں سرزمین فلسطین کو غصب اور ستر سال سے زیادہ عرصے سے اس میں جرائم کا ارتکاب، نیز پوری دنیا کے میڈیا پر قبضہ کرنے کے باوجود اس ریاست پر اپنی نابودی کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے صہیونی ریاست کے حکام کے خصوصی جلسوں میں صرف اپنی بقا پر ہی غور و خوض کیا جاتا ہے۔ یہودی ایجنسی کے ڈائریکٹر بورڈ کے حالیہ جلسے جو ڈائریکٹر بورڈ کے سربراہ ’’ناٹن شارنسکی‘‘ کی موجودگی میں منعقد ہوا اور جلسہ میں انتخابات کے بعد ’’اسحاق ہرٹزوک‘‘ کو ناٹن شارنسکی کا نائب صدر مقرر کیا، میں انہوں نے یہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہمیں یہودیوں کو متحد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مقام تک پہنچنا ہے کہ ہمیں یقین ہو جائے کہ یہودی نابود نہیں ہوں گے۔ یہودی، یہودی ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ کیسا لباس پہنے اور کس پارٹی سے منسلک ہو، ہم سب ایک ہیں۔
اسی سلسلے سے صہیونی تنظیم نے ’’قدس میں کتاب مقدس کی اراضی‘‘ کے زیر عنوان ایک سروے کیا جس میں آدھے سے زیادہ صہیونیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی نسبت تشویش کا اظہار کیا۔
صہیونی آبادکاروں کے چینل نمبر ۷ کی رپورٹ کے مطابق، یہ سروے ۵۰۰ یہودیوں کے درمیان انجام دیا گیا جن کی عمر ۱۸ سال سے ۶۵ سال کے درمیان تھی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ۴۲ فیصد یہودیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی رائے دی جبکہ ۱۰ فیصد نے اسرائیل کی نسبت اظہار تشویش کیا۔ (۴) سروے کی رپورٹ کے مطابق، مذہبی یہودیوں کو زیادہ تر تشویش اس بات سے ہے کہ پوری دنیا صہیونی ریاست سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔
یہودی قوم ڈرپوک اور بزدل
زوال کے خوف کی ایک وجہ یہودیوں کا ڈرپوک اور بزدل ہونا ہے۔ ان کے اندر یہ صفت اس وجہ سے پائی جاتی ہے چونکہ وہ حد سے زیادہ دنیا سے وابستہ ہیں۔ قرآن کریم کے سورہ آل عمران کی آیت ۱۱۲ میں یہودیوں کی اس صفت کی مذمت کی گئی ہے۔ خداوند عالم اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے: «ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ أَیْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْکَنَةُ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَیَقْتُلُونَ الْأَنْبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ، ’’ان پر ذلت کے نشان لگا دئے گئے ہیں یہ جہاں بھی رہیں مگر یہ کہ خدائی عہد یا لوگوں کے معاہدے کی پناہ مل جائے، یہ غضب الہی میں رہیں گے اور ان پر مسکنت کی مار رہے گی۔ یہ اس لیے کہ یہ آیات الہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے۔ یہ اس لیے کہ یہ نافرمان تھے اور زیادتیاں کیا کرتے تھے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہودی ہمیشہ ذلیل و خوار تھے۔ اگر چہ بسا اوقات انہوں نے دنیا کی معیشت یا ت پر قبضہ جمایا۔ لیکن انسانی وقار، عزت و سربلندی اور امن و س کے اعتبار سے بدترین منزل پر رہے ہیں۔ ( جیسے چور اور ڈاکو جو اگر چہ چوری کر کے، ڈاکہ مار کے عظیم مال و ثروت کے مالک بن جاتے ہیں لیکن انسانی اقدار کے حوالے سے ان کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہوتا)۔ لہذا «ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ»
صہیونی ریاست کی جڑیں شیطانی افکار میں پیوست
یہودی ریاست کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بنیادیں شیطانی افکار پر قائم ہیں۔ اس غاصب اور طفل کش ریاست کی جڑیں شیطان کے وجود سے پھوٹتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کبھی بھی قائم و دائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے مقابلے میں اسلامی حکومت ثابت قدم اور استوار ہے۔ اگر چہ دنیا ساری کے ذرائع ابلاغ مشرق سے لے کر مغرب تک اس نظام حکومت کے خلاف عمل پیرا ہیں۔
سینکڑوں مفکر اور ماسٹر مائنڈ روز و شب اس کام پر جٹے ہوئے ہیں کہ کوئی نہ کوئی سازش، کوئی منصوبہ کوئی پراپیگنڈہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جنم دیں اور اسے متزل کرنے کی کوشش کریں لیکن اسلامی نظام کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچا سکتے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ اس نظام حکومت کا قیام خدا پر ایمان اور توکل کی بنا پر ہے۔
صہیونی ریاست اور دنیا کے ظالمین کا زوال اس وجہ سے ہے کہ ان کی بنیاد ظلم، باطل اور شیطانی افکار پر قائم ہے خداأوند عالم نے خود ان کی نابودی کا وعدہ دیا ہے۔ قرآن کریم جب حق و باطل کے تقابل کی منظر کشی کرتا ہے تو یوں فرماتا ہے:
«اَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِیَهٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَابِیاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَه اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا اَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً وَاَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الاْرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الاْمْثَالَ»؛
’’اس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کر جھاگ پیدا ہو گیا جسے آگ پر زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لیے پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے‘‘۔ (سورہ رعد، ۱۷)
دینی علماء کی مجاہدت صہیونی ریاست کی نابودی کا ذریعہ
صہیونیوں کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں مخلص، متدین اور مجاہد علماء کا وجود ہے۔ وہ علماء جنہوں نے دین کی حقیقت کو پہچانا ہے اور دین کو صرف نماز و روزے میں محدود نہیں جانتے ہمیشہ سے باطل طاقتوں کے لئے چیلنج بنے رہے ہیں اور باطل طاقتیں ان کے چہروں میں اپنی نابودی کا نقشہ دیکھتی رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے یہ الفاظ ہیں  جو آپ نے ۸ ستمبر ۲۰۱۵ کو اپنی ایک تقریر کے دوران بیان فرمائے تھے: تم (صہیونیو) آئندہ ۲۵ سال کو نہیں دیکھ پاؤ گے۔ انشاء اللہ آئندہ ۲۵ سال تک اللہ کے فضل و کرم سے صہیونی ریاست نام کی کوئی چیز علاقے میں نہیں ہو گی‘‘۔ آپ کا یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسے پھیلا جیسے خشک جنگل میں آگ پھیلتی ہے۔ اس بیان نے صہیونی رژیم کے منحوس وجود پر لرزہ طاری کر دیا۔ اور اس کے بعد سے آج تک وہ صرف اپنی بقا کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ خدا کرے ان کی یہ جد و جہد خاک میں ملے اور طفل کش صہیونی رژیم ہمیشہ کے لیے صفحہ ھستی سے محو ہو جائے۔

 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران میں فلسطین کی تحریک ’جہاد اسلامی‘ کے نمائندے ناصر ابوشریف نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امت اسلامی کو صہیونی منصوبوں کے مقابلے میں کامیابی کی طرف رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ صہیونی منصوبے جو امت اسلامی کو پاش پاش کرنے کی غرض سے تیار کیے گئے ہیں۔
اسلامی انقلاب کا بھروسہ اسلام پر اور مغربی و صہیونی سازشوں کے مقابلے میں استقامت اور پائیداری پر ہے لہذا کامیابی اسلامی انقلاب کا مقدر ہے۔
شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ جو ہماری آخری ملاقات ہوئی اس میں انہوں نے کہا کہ قدس کی آزادی کے لیے جد و جہد عصر حاضر میں نہ صرف ایک ذمہ داری ہے بلکہ آزمائش کا ایک ذریعہ بھی ہے اور خداوند عالم امت کو اس کے حوالے سے مواخذہ کرے گا اور پوچھے گا کہ تم نے قدس کے لیے کیا کیا۔ جو لوگ اس آزمائش اور منزل امتحان میں کامیاب نہیں ہوں گے جہنم کی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ شہید سلیمانی نے اس ملاقات میں اس اہم نکتے پر زور دیا کہ قدس بہشت و دوزخ کو متعین کرنے کا ذریعہ ہے۔
میں ایک فلسطینی ہونے کے ناطے ملت ایران سے کہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی انقلاب کی حمایت ہماری ذمہ داری ہے چونکہ ایران اور اسلامی انقلاب تمام مستضعفوں اور مظلوموں کی امید ہے۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بین الاقوامی پابندیوں اور مقبوضہ فلسطین کے رہنے والے فلسطینیوں کی آبادی میں اضافہ نے اسرائیل میں ڈیموکریسی کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
ان تمام حالات کے باوجود، پناہ گزینوں کے حق واپسی کو نظرانداز کرنے اور امن کا منصوبہ پیش کرنے والی امریکی ڈیل کے قبول کرنے پر فلسطینی مجبور نہیں ہیں۔ بلکہ یہ سرزمین دھیرے دھیرے خود بخود ان کے قبضے میں واپس چلی جائے گی۔ صرف انہیں ایک دو نسلوں تک صبر کرنے کی ضرورت ہے یہاں تک کہ ’یہودی اسرائیل‘ نابود ہو جائے۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عراق میں اٹلی کے سابق سفیر نے کہا ہے کہ مغربی ایشیا میں ایران کے اسلامی انقلاب کو چالیس سال مکمل ہو چکے ہیں جبکہ اس کے خاتمے کی کوئی نشانی نظر نہیں آ رہی ہے۔
وہ مزاحمتی محاذ جس کا امریکہ مخالف ہے اور صہیونی ریاست جس کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے وہ ایران کی آئیڈیالوجی کے مطابق پروان چڑھ رہا ہے۔
ایران چونکہ کسی بھی قیمت پر مغربی طاقتوں کے آگے جھکنے کو تیار نہیں ہے اور اسرائیل- فلسطین کے درمیان صلح کے لیے امریکہ کے تجویز کردہ امن منصوبے کو تسلیم نہیں کر رہا ہے لہذا علاقے میں اس کا موقف اہم اثرات کا حامل ہے۔
امریکہ کے بدستور حکم سے جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد ان کے تشییع جنازہ میں غیر قابل تصور جم غفیر کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایرانی قوم امریکہ کی اس خام خیالی سے وں دور ہے کہ امریکہ ان کے لیے نجات دھندہ ہے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کچھ سال قبل صہیونی ریاست کو زبردستی جنم دیا گیا، اور زبردستی اس رژیم کی طاقت کو بڑھاوا دیا گیا اور ہمیشہ یہ کوشش کی گئی کہ اسرائیل کو نیل سے فرات تک قابض کریں۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست کے پرچم پر دو نیلے رنگ کی لیں ہیں جو نیل اور فرات کی علامتیں ہیں۔
وہ اسرائیل جو طے تھا کہ روز بروز بڑے سے بڑا ہوتا جائے گا وہ دن بدن چھوٹے سے چھوٹا ہوتا گیا۔ اس رژیم کو لبنان اور غزہ سے نکال دیا گیا اور آج وہ مجبور ہے کہ اپنے اطراف میں دیوار کھینچے۔ جبکہ یہ دیوار غیرقانونی ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
آج مزاحمتی محاذ اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ جب چاہے مقبوضہ فلسطین کے ہر نکتے کو نشانہ بنا سکتا ہے اگر چہ وہ کس قدر اسرائیل کے لیے اہمیت کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔
سید حسن نصر اللہ نے اپنی ایک دھمکی میں کہا تھا کہ ہم حیفا کے ’امونیا‘ مرکز کو بھی حملے کا نشانہ بنا سکتے ہیں اور اس مرکز کا دھماکہ صہیونیوں کے لیے ایٹم بم کے دھماکے سے کہیں زیادہ ہے۔ لہذا صہیونی ریاست اپنی سالمیت کو لے کر کافی خائف ہے۔
اگر تمام فلسطینی یک صدا ہو کر آواز بلند کریں اور اپنے گھر واپسی کا اعلان کر دیں تو یقینا صہیونی ریاست کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا۔ لہذا اسرائیل کی نابودی اسی میں مضمر ہے۔

حسین شیخ الاسلام کے ساتھ خیبر کی خصوصی گفتگو سے اقتباس


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ دستغیب تیسرے شہید محراب اور انقلابی مجتہد ہیں کہ لوگ عام طور پر انہیں استاد اخلاق اور اخلاقی کتابوں جیسے قلب سلیم اور گناہان کبیرہ وغیرہ کے مولف ہونے کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔
آپ کی ی سرگرمیوں میں اسرائیل اور صہیونیت کے خلاف جد و جہد واضح و آشکار نظر آتی ہے۔ انقلاب اسلامی سے قبل، ایران کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے پر آیت اللہ دستغیب نے پہلوی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے آپ کو گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا گیا۔ آپ کے اس عمل سے ہمیں دو پیغام ملتے ہیں؛ ایک یہ کہ کسی انسان کے اخلاقی اور معنی امور میں درجہ کمال تک پہچنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ ی دنیا سے بے خبر ہو اور مسلمانوں کے مسائل کی نسبت آگاہی نہ رکھتا ہو۔ دوسرا یہ کہ پہلوی حکومت کس قدر غیروں خصوصا اسرائیل کی غلام تھی کہ صہیونی ریاست پر معمولی اعتراض برداشت کرنے کی توانائی نہیں رکھتی تھی اور اعتراض کرنے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آتی تھی۔ (۱)
۱۔ یاران امام به روایت اسناد ساواک، ج ۱۰، ص ۱۱۸، ۱۴۶، ۲۴۸-۲۵۸، ۵۹۰-۶۳۱.
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ سید محمد قاضی طباطبائی جو آذربائیجان میں حضرت امام خمینی (رہ) کے نمائندے تھے پہلے شہید محراب ہیں کہ جنہیں انقلاب اسلامی سے قبل بھی متعدد بار شہنشاہی حکومت نے جلاوطن کیا۔ اسرائیل اور صہیونیت کے خلاف مجاہدت آپ کی خصوصیات میں شامل تھی جو آپ امام کی پیروی میں اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے انجام دیتے تھے۔
مثال کے طور پر عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ہوئی تیسری جنگ کے بعد آیت اللہ قاضی طباطبائی نے دیگر علماء کی طرح فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے امداد اکٹھا کرنے کی انتھک کوشش کی۔ (۱)
۱۔ نیکبخت، رحیم و اسمعیل زاده، صمد، زندگینامه و مبارزات شهید آیت‌الله قاضی طباطبائی، ص۲۲۹.

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: برطانیہ ان سامراجی اور استعماری طاقتوں میں سے ایک ہے جس نے برصغیر کے سرمایے کو لوٹنے میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا۔ سالہا سال اس علاقے پر ناجائز قبضہ کر کے برصغیر کا سارا سرمایہ غارت کر لیا لیکن آخر کار ہندوستان کے عوام نے انقلابی تحریک وجود میں لا کر انگریزوں کو بظاہر اپنی سرزمین سے باہر کیا اور برصغیر سے سامراجی نظام کا خاتمہ کیا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ صہیونی دانشور اور ت دان سامراجی عناصر کے ہمراہ، قدیم الایام سے اپنے عالمی تسلط کے نظریے کے تحت برصغیر پر قبضہ جمانے کے لیے تزویری اقدامات انجام دینے کے قائل تھے اور برطانیہ کے ہندوستان پر قبضے کے دوران اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے اور سامراجی طاقت بھی اس راہ میں انہیں تعاون فراہم کرتی رہی۔ در حقیقت برطانیہ نے جب ہندوستان کو چھوڑا تو اسرائیل کے لیے ہندوستان میں مکمل فضا قائم ہو چکی تھی اس لیے بغیر کسی شور شرابے کے برطانیہ ہندوستان میں اپنا جانشین چھوڑنے پر کامیاب ہوا تاکہ قدس کی غاصب ریاست برصغیر مخصوصا بھارت کے سکیورٹی نظام میں اپنا گہرا نفوذ حاصل کر سکے۔
دوسری جانب سوویت یونین نے جب افغانستان پر اپنا تسلط ختم کیا تو امریکہ کو اس علاقے میں گھسنے کا موقع مل گیا۔ امریکہ نے سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے بہانے سے، پاکستان میں اپنی امداد رسانی شروع کر دی۔ اور سوویت یونین کی شکست اور خاتمے کے بعد القاعدہ اور طالبان جیسے ٹولے وجود میں لاکر علاقے میں اپنی موجودگی کے لیے ایک نیا بہانہ تراش لیا۔ لہذا ۱۱ ستمبر کے حادثے کے بعد پاکستان بھی علاقے میں دھشتگردی کا مقابلہ کرنے کی غرض سے امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ پاکستان پر جوہری تجربات کی بنا پر امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد تھیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ نے علاقے میں اپنی موجودگی کو بحال رکھنے کے لیے بعض مسائل سے چشم پوشی اختیار کر لی۔
تیسری جانب سعودی عرب نے برصغیر میں اہل سنت کی تمایلات اور رجحانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہابیت کو پھیلا دیا۔ سعودی عرب نے امریکہ کی حمایت کہ جو افغانستان پر قبضہ کرنے میں سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے دوران آغاز ہوئی، سے ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے حوزہ ہائے علمیہ کو اپنے اختیار میں لے لیا۔
علاوہ از ایں علاقے میں اسلامی انقلاب کے نفوذ کو روکنا بھی امریکی سعودی پالیسیوں کا ایک حصہ تھا۔
تنازعہ اور کشمکش
ہندوستان پر برطانیہ کے قبضے کے دوران برصغیر کا اکثر علاقہ ایک ہی جیوپولیٹک علاقہ شمار ہوتا تھا صرف نیپال اور بوٹان کے کچھ علاقے انگریزیوں والے ہندوستان سے باہر تھے۔ لیکن برطانیہ کے تسلط کے خاتمہ اور برصغیر کی تقسیم کے بعد، یہ علاقہ جنگ و جدال کا مرکز بن گیا۔ یہاں تک کہ ہند و پاک کے درمیان ہونے والی جنگوں میں ایک ملین سے زیادہ لوگ مارے گئے۔
اس کے علاوہ، سری لنکا جو ۱۹۴۸ میں آزاد ہوا تقریبا دو دہائیوں سے تامل بدھسٹ انسٹی ٹیوٹ کی علیحدگی پسند تحریک کی بغاوت سے دوچار ہے۔ اس علاقے میں بنگلادیش حکومت نے بھی ایسے دور میں جنم لیا کہ مشرقی بنگال پاکستان کے زیر تسلط تھا اور ۱۹۷۱، ۷۲ کی جنگوں میں پاکستان سے الگ ہوا جس میں تقریبا پانچ سو افراد کا قتل عام ہوا۔
ایسے حال میں کہ آج استعماری حاکمیت کے دور سے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی بھی ہندوستان کی رگوں میں سامراجیت کا خون دوڑ رہا ہے بظاہر تو ہندوستانی ی پارٹیاں بھارتی ہونے کے نام پر جمہوریت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں اور لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ریاستی حکومت تشکیل دیتی ہیں لیکن باطن میں ابھی بھی سامراجی فکر، سامراجی سوچ، سامراجی پالیسیوں اور قوانین پر عمل ہو رہا ہے۔ ابھی بھی بہت کچھ اصلاح کرنے کے لیے باقی ہے۔ برصغیر کا علاقہ دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کو تشکیل دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی خستہ حالی اور غربت و مفلسی دنیا کے لیے مثالی تصویر بن چکی ہے۔ ہند و پاک کا سارا بجٹ سرحدوں کے تحفظ اور عسکری طاقت کو مضبوط بنانے میں صرف ہوتا جا رہا ہے دوسری طرف اندرونی حالت یہ ہے کہ مذہبی اختلاف اور قومی فرقہ واریت اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ یہ تمام عوامل اس بات کا باعث بن رہے ہیں کہ برصغیر کے ممالک میں مزید دوریاں پیدا ہوں اور آپسی اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچے جبکہ علاقائی سطح پر اپنی شناخت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، بھارت اسرائیل تعلقات کا قیام مختلف عوامل کا حامل ہے دونوں فریق ان تعلقات کو صرف اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اسرائیل ہندوستان کو اسلحہ فروشی کی بہترین منڈی اور اپنے جنگی ہتھیاربیچنے کے لیے بہترین مارکٹ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جبکہ بھارت بھی اسرائیل کو فوجی ساز و سامان اور دفاعی میدان میں جدید ٹیکنالوجی جو امریکہ و یورپ سے اسے اتنی آسانی سے دستیاب نہ ہو پاتی کو فراہم کرنے والے دلال کے عنوان سے دیکھتا ہے۔
ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اور تبدیلی بھارت کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں گہرائی ہے کہ ایسے روابط بدرجہ اولیٰ ہندوستانی کی خارجہ ت کو متاثر کریں گے۔ البتہ ان روابط کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بھارت میں ہندو نسل پرستی عروج پا جائے گی اور اسلامی سماج زوال کا شکار ہو گا۔ (صدوقی، ۱۳۸۷؛ ۹۴)
اسرائیل اس وقت روس کے بعد بھارت کے نزدیک دوسرا فوجی شریک شمار ہوتا ہے۔ دونوں فریق میزائلی طاقت کو وسعت دینے میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔
ہندوستان کی پی ٹی آئی نیوز ایجنسی نے جنوری ۲۰۰۴ میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان دفاعی قوت کو بڑھانے کے لیے قرار داد منظور کی گئی ہے۔ اس قرارداد پر بھارتی عہدیداروں اور صہیونی ریاست کے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے بنگلور میں دستخط کئے۔ اس معاہدے کے مطابق، جی ایس آئی ۴ سیٹلائٹ بھارتی خلائی ریسرچ آرگنائزیشن ۲۰۰۵ میں ایک اسرائیلی ٹیلی اسکوپ کو اپنے ساتھ خلاء میں بھیجے گا یہ ٹیلی سکوپ خلاء سے تصویربرداری پر قادر ہو گا اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات بھارتی اور اسرائیلی متخصصین کے ذریعے مورد تحقیق قرار پائیں گی۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان عسکری تعاون خاص طور پر خلائی میدان میں ستمبر ۲۰۰۷ میں اسرائیلی سیٹلائٹ کو خلاء میں بھیجنے پر منتج ہوا۔ بعض رپورٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سیٹلائٹ کو بھیجنے کا اہم ترین مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی پلانٹ پر نظر رکھنا ہے۔ اس سیٹلائٹ کا ۳۰۰ کلو گرام وزن تھا اور ٹکسار اس کا نام۔ اس سے قبل بھی اسرائیل افق ۷ سیٹلائٹ کو خلاء میں بھیجنے کا تجربہ کر چکا تھا۔ لیکن دوسرا سیٹلائٹ کہیں زیادہ قابلیتوں اور صلاحیتوں کا مالک تھا خاص طور پر وہ راڈٓر ٹیکنالوجی سے لیس تھا۔ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس سے قبل بھی ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان عسکری میدان میں باہمی تعاون جاری تھا۔
اسرائیل کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ خصوصی تعلقات وجود میں لانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ تعلقات انفارمیشن ٹیکنالوجی، بالیسٹک میزائیل، خلائی پروگراموں اور اسلحہ سازی کی صنعت کے میدان میں تعاون کے حوالے سے پائے جاتے ہیں۔



خیبر صہیون تحققاتی سینٹر: اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے مشرق وسطیٰ پر تحقیقات کرنے والے انسٹی ٹیوٹ MEMRI سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مختلف ذرائع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چین کی اقتصادی طاقت کو لگام پہنانے اور لوگوں کے اندر نفساتی جنگ پیدا کرنے کی غرض سے امریکہ اور اسرائیل نے کرونا وائرس بنا کر چین میں پھیلایا۔  
نیز سعودی اخبار الوطن نے دعویٰ کیا ہے کہ ایبولا ، زیکا ، سارس ، برڈ فلو ، سوائن فلو سے لے کر کرونا وائرس تک ، سب کے سب خطرناک وائرس امریکی لبارٹریوں میں بنائے اور مختلف ملکوں میں پھیلائے جاتے ہیں۔ جس کا اصلی مقصد لوگوں میں نفسیاتی جنگ کی صورت پیدا کرنا اور دواؤں کی بڑی بڑی کمپنیوں سے کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے۔  
اس اخبار نے مزید لکھا ہے کہ امریکہ نے ایک نئی قسم کی بیالوجیکل وار کا آغاز کر دیا ہے ، جس کے ذریعے وہ دنیا میں کھیل کے اصولوں کو اپنے فائدے میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، اس وباء کے لئے ایک منصوبہ بند اقتصادی پروپیگنڈا رچایا گیا ہے، کیوں کہ اس کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ ہے اس کا خیال ہے کہ چین کو ہنگامی علاج معالجہ، قرنطینہ اور دوا کی خریداری میں اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے اور آخر کار اس بیماری کی دوا ایک اسرائیلی کمپنی کے ذریعے انکشاف کی جائے گی۔
اس رپورٹ سے معلوم ہوتا کہ دوا بنانے والی اسرائیلی اور امریکی کمپنیوں نے یہ وائرس پھیلا کر اپنی دوائیں بیچنے کا راستہ ہموار کر لیا ہے۔


خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: کتاب ’’اسرائیل جمہوری یا اپارتھائیڈ ریاست؟‘‘ (Israel: Democracy or Apartheid State?) امریکی تجزیہ کار، ی کارکن اور محقق ’جوش روبنر‘ (Josh Ruebner) کی کاوش ہے۔ موصوف نے مشیگن یونیورسٹی (University of Michigan) سے علوم یات میں بے اے اور جانز ہوپکینز(Johns Hopkins University) سے بین الاقوامی روابط میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ روبنر اس وقت فلسطینی انسانی حقوق تنظیم کے ی رہنما ہیں۔
مذکورہ کتاب کے مقدمے میں مصنف نے فلسطینی عوام کے ساتھ صہیونیوں کی جنگ، برطانوی حکومت کی طرف سے بالفور اعلانیہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے سرزمین فلسطین میں یہودیوں اور عربوں کے لیے دو الگ الگ ملکوں کی تشکیل کی پیشکش جیسے مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر چہ اقوام متحدہ کی پیشکش نے اسرائیلی ریاست کی تشکیل کو کسی حد تک تاخیر میں ڈال دیا لیکن آخرکار تقریبا ۵۰ سال کے بعد اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت سے فلسطین کے ایک عظیم حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
روبنر کوشش کرتے ہیں اس کتاب میں تاریخی دستاویزات اور حقوقی و ی تجزیوں کے ذریعے اس سوال کا جواب دیں کہ کیا مقبوضہ فلسطین میں قائم صہیونی ریاست جمہوری ریاست ہے یا اپارتھائیڈ ریاست؟
یہ کاوش ۲۱ مختصر حصوں پر مشتمل ہے جو ۲۰۱۸ میں منظر عام پر آئی۔ مصنف نے اس کتاب  ’’اسرائیل؛ جمہوری یا اپارتھائیڈ ریاست؟‘‘ کا ایک ایسے فلسطینی گاؤں جو ۱۹۴۸ کی جنگ میں اجھڑ گیا تھا کے سفر سے آغاز کیا اور بعد والے حصوں میں اسرائیلی معیشت، اسرائیل کی تاریخ ۱۹ ویں صدی کے اواخر کے بعد، صہیونیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے راہ ہائے حل، امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات، BDS تحریک کی نسبت صہیونی ریاست کا رد عمل اور تشدد و جارحیت کے ذریعے موجودہ صورتحال کے کنٹرول کے لیے اسرائیل کی توانائی جیسے موضوعات کو مورد گفتگو قرار دیا ہے۔ نیز مصنف نے کتاب کے ایک حصے کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے مختص کیا ہے۔
جوش روبنر ساری کتاب میں کوشش کرتے ہیں کہ صہیونی ریاست کو ایک اپارٹھائیڈ ریاست کے عنوان سے پہچنوائیں۔ وہ اپنے اس نظریے کی تائید میں کہتے ہیں: ’’اپارتھائیڈ کا مفہوم اپنی ذاتی خصوصیات اور ان معانی جو جنوبی افریقہ پر اطلاق ہوتے تھے سے الگ ہو گیا ہے اور اس وقت ایک خاص اور عالمی مفہوم اور تعریف میں تبدیل ہو چکا ہے۔  موجودہ دور میں اپارتھائید ایسے اقدامات کے مجموعے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے ایک خاص نسل کو ملک کے سماجی، ی، معیشتی اور ثقافتی امور میں حصہ لینے سے روک دیا جاتا ہے۔  بالکل واضح ہے کہ صہیونی ریاست کی تمام پالیسیاں منجملہ فلسطینیوں کے ساتھ فوجی سلوک، بین الاقوامی تعریف کے مطابق اپارتھائیڈ کی مصادیق ہیں۔




ادیان ابراہیمی کی مقدس کتابوں میں شادی کے مسئلے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہودیوں کی مقدس کتاب کی فصل پیدائش کی اٹھارہویں آیت میں یوں لکھا ہے: ’’خدا نے فرمایا ہے کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے لہذا اس کے لیے ایک شریک حیات بناؤں‘‘۔
پطرس فرجام نے کتاب ایضاح التعلیم المسیح میں لکھا ہے: ’’شادی کے ذریعے مرد اور عورت ایک ایسا مقدس اتحاد اور رشتہ قائم کر لیتے ہیں جو ناقابل جدائی ہوتا ہے۔ مرد پر لازمی ہو جاتا ہے کہ عورت کے حق میں محبت، احترام اور امانت داری کی رعایت کرے اور عورت بھی مد مقابل محبت، امانت اور اطاعت کی انجام دہی پر مم ہو جاتی ہے‘‘۔
دین اسلام میں بھی شادی کے مسئلے پر بے حد تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے بیان فرمایا: ’’ خدا کے نزدیک شادی سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے‘‘۔ لہذا دین اسلام کے بزرگ اس گھر کو بہترین گھر جانتے تھے جس میں شادی کی رسم انجام پائے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ادیان الہی کی طرف سے شادی اور ازدواج کے مسئلے پر اتنی تاکید ہونے کے باوجود آج ہم دیکھ رہے کہ نہ مشرق کا کوئی مکتب فکر اس بات کا پابند ہے اور نہ ادیان ابراہیمی کے ماننے والوں میں اس چیز کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ محرموں کے ساتھ ، ہم جنس پرستی، بغیر شادی کے ایک ہی چھت کے نیچے مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہنا، اور اس طرح کے دیگر مسائل اس بات کا باعث بنے ہیں کہ شادی کے فوائد کا خاتمہ ہوجائے اور ان مشکلات کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف طرح کے قوانین بنائے جائیں، مثال کے طور پر برطانیہ کا رومہ ڈیلی میل مورخہ ۲۴ ستمبر ۲۰۱۴ کی اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: قانون کے مطابق، پرائمری اسکول اگر جنسی تعلیم کے دروس کو چھوڑ دیں تو انہیں جرمانہ کیا جائے گا۔ میڈل اسکولوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حاملگی (پریگننسی) روکنے والی دوائیں اور دیگر وسائل اسکولوں میں تقسیم کریں۔
شادی سے پہلے سیکس کی تعلیم اور پریگننسی روکنے والی دواؤں کا استعمال، مغربی معاشرے میں ناقابل کنٹرول مشکل ہے کہ جنہوں نے اس مشکل کو حل کرنے کے بجائے تعلیم اور دوا کی تقسیم کے ذریعے مشکل کو آسان بنا دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے شادی کے مسئلے کو نظر انداز کر کے کبھی بھی کوئی معاشرہ ان مشکلات کا راہ حل تلاش نہیں کر سکتا؛ زادہ اولاد کے ماں باپ کا پتہ نہ ہونا، حرام زادہ بچوں کے اسکولوں(kindergarten) کا کثرت، جنسی فساد کا پھیل جانا، آبادی کا تناسب کم ہونا اور نفسیاتی اور سماجی بیماریوں میں دن بدن اضافہ جیسے مسائل اس طرح کے سماج کے دامن گیر ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ادیان الہی میں شادی کو ایک مقدس اور خداپسند امر ہونے کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۱۹۶۷ کے بعد صہیونی ریاست کے ہاتھوں مقبوضہ فلسطین میں تمام ثقافتی آثار چاہے وہ مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہوں یا عیسائیوں سے، کی نابودی کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے رد عمل میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دنیا کے حریت پسندوں لوگوں حتی بعض یہودیوں نے بھی اسرائیل کے ان گھناونے اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اگر چہ بیت المقدس یا یورشلم انسانی ثقافت میں ایک خاص مقام کا حامل ہے اور اس کی معنوی اور تاریخی اہمیت کسی پر بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے اس ثقافتی شہر پر جارحیت، کسی کے لیے بھی قابل برداشت نہیں ہے۔
فلسطین اتھارٹی واچ نے ۹ ویں کانفرنس ۱۹۷۱ میں عرب سماج کو یہ تجویز پیش کی کہ بیت المقدس کے تاریخی آثار کے امور کے لیے ایک علمی کمیٹی تشکیل دی جائے جو علاقے میں اسرائیل کی بے راہ رویوں کا جائزہ بھی لے اور تاریخی آثار کے تحفظ کے سلسلے میں اسرائیلی عہدیداروں کے جھوٹے دعوؤں کو ثابت بھی کرے۔ عرب سماج نے چھپن(۵۶) اداری مٹینگوں کے بعد اس تجویز کو قبول کیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی۔
اس کمیٹی کی منجملہ تحقیقات ’’کشاف البلدان الفلسطینیة‘‘ (فلسطینی شہروں کی رہنمائی) ۱۹۷۳ میں، ڈاکٹر اسحاق موسی حسینی کے ذریعے اور جامع بیت المقدس۱۹۷۹ میں منظر عام پر آئیں۔
یہاں پر در حقیقت یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ کیوں سرزمین فلسطین کے تاریخی آثار کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟
کیا لوگوں میں ایک ایسی آزاد فکر اور وسعت نظر رکھنے والی ثقافتی تحریک وجود میں نہیں آنا چاہیے جو ان آثار قدیمہ کو ہمیشہ زندہ اور محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو؟


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر اسرائیلیوں کے قبضے سے پہلے، اس کی معیشت کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا لیکن اعلانِ بالفور (1) اور دوسرے ممالک سے یہاں آنے والے یہودی مہاجروں کے سیلاب کے بعد، حالات رفتہ رفتہ بدل گئے۔ اور چونکہ مہاجر یہودی صاحب ثروت بھی تھے اور برطانیہ کی سرکاری اور عسکری قوت بھی ان کی پشت پر تھی، مسلم تاجر اور زمیندار منظر عام سے ہٹ گئے یا پھر مزارعوں اور کاشتکاروں میں بدل گئے۔ بالفاظ دیگر معاشی صورت حال مختصر سی مدت کے بعد نہایت تیزرفتاری سے اور بہت ہی ظالمانہ انداز میں یہودیوں کے مفاد میں تبدیل ہوگئی۔
لیکن اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ اس ریاست کو بھاری بھرکم بیرونی امداد ملتی رہتی ہے اور جرمنی ہر سال یہودی ریاست اور ہولوکاسٹ کے پس ماندگان کو تاوان ادا کرتا ہے اور باہر سے آنے والی یہ رقوم بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر ہیں۔ بطور مثال امریکہ ہر سال تین ارب ڈالر اس ریاست کو بطور امداد ادا کرتا ہے؛ اور یہ امداد ان مالدار یہودیوں کے چندے کے علاوہ ہے جو ٹیکس سے بچنے کے لئے اسرائیل کی مدد کرنے والے خیراتی اداروں کو چندہ دیتے ہیں۔ یہودی ریاست نے بڑی مقدار میں بلامعاوضہ قرضے بھی امریکہ سے وصول کئے ہیں جو اس نے واپس نہیں کئے ہیں لیکن امریکی عوام کو ان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ چنانچہ اس ریاست نے ان کمیاب مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اقتصادی ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور اسے مستحکم کیا اور نمایاں ترقی کی۔ (2)
یہودی ریاست کو وسائل کی قلت کی وجہ سے خام تیل، اناج، خام مال، فوجی سازوسامان اور درمیانی اشیاء (3) کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان اشیاء کی درآمد کے لئے ضروری زر مبادلہ کمانے کی خاطر اس کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ اس نے بھاری اور ہلکی صنعتوں کے ساتھ ساتھ فوجی صنعت اور معدنیات پر سرمایہ کاری کی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ 1950ع‍ کی دہائی میں اس ریاست کی درآمد صرف 10 فیصد ہے لیکن اگلی دہائی میں اس کی درآمدات 25 فیصد تک اور 1980ع‍ کی دہائی میں 50 فیصد تک پہنچتی ہیں؛ اور یہ ریاست اپنی درآمدات میں مزید اضافہ کرنے کی مسلسل کوشش کررہی ہے۔ (4)
تاہم مخالف عرب ممالک کے بیچ اس کی زد پذیری کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کی طرف کی سازشوں سے بچنے کے لئے اس ریاست نے سب سے پہلے زراعت اور اشیاء خورد و نوش کی تیاری میں خود کفالت کا فیصلہ کیا اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے اس نے فلسطینیوں کی زرخیز زمینیں غصب کرنے کے ساتھ ساتھ، ابتداء ہی سے لبنان،  شام اور اردن پر حملوں میں ان ممالک کے آبی ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنے کا ہدف مد نظر رکھا تھا تا کہ اپنی آبی قلت کو دور کرسکے۔ اس ظالمانہ کوشش اور یہودیانہ دور اندیشی کے نتیجے میں وہ بہت مختصر عرصے میں ترشاوا پھلوں، (5) زیتون، انجیر، انگور، انار، بادام، کیلے، کھیرے اور ٹماٹر کی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل ہوئی بلکہ انہیں بیرون ملک برآمد کرنے کے قابل بھی ہوئی۔ یہاں تک کہ اس ریاست کی زرعی مصنوعات معیار کے لحاظ سے دنیا میں جانی پہچانی ہیں۔ (6)
یہودی ریاست نے اقتصادی لحاظ سے اتنی ترقی کرلی کہ اس کی مجموعی اندرونی آمدنی ہر پانچ سال بعد دو گنا ہوجاتی تھی۔ صورت حال اچھی تھی حتی کہ بیسویں صدی کی معاشی مندی (7) اور پڑوسیوں کے ساتھ متواتر جنگوں نے یہودی ریاست پر بھاری معاشی بوجھ ڈال دیا اور یہودی حکومت کو 12 ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ (8)
اسرائیلی ریاست نے اس بحران کے پیش نظر اپنا معاشی ڈھانچہ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس ریاست کا ابتدائی معاشی ڈھانچے کو ـ جس کی بنیاد یہودی مہاجروں اور اسرائیل کے بانیوں کے زیر اثر اشتراکیت (9) کے طرز پر رکھی گئی تھی ـ معاشی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیا گیا؛ کیونکہ زیادہ تر صنعتی مراکز کی باگ ڈور ریاست اور ہیستادروت (10) کے ہاتھ میں تھا اور کچھ کمپنیاں ریاست اور بعض افراد کے درمیان مشترکہ تھیں۔
اسی رو سے 1970ع‍ کی دہائی کے بعد 100 بڑی صنعتی کمپنیوں میں سے 12 کمپنیاں نجی شعبے کو واگذار کی گئیں۔ مزدوروں کی کوآپریٹو یونین (11) سے وابستہ کمپنیاں ـ جو یہودی ریاست کی سو کمپینوں میں سے 35 کمپنیوں پر مشتمل تھی ـ کی بھی نجی شعبے کے حوالے کی گئی۔ تاہم نجکاری کے اس عمل میں کچھ بینکوں کی نجکاری ـ کچھ مشکلات کی بنا پر ـ کند رفتاری کا شکار ہوئی۔ (12)
با ایں ہمہ، اسرائیلی ریاست کی اقتصادی ترقی میں بیرونی امداد اور ظلم و جارحیت کے علاوہ کچھ دیگر عوامل کا بھی کردار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کی معاشی ترقی چار عوامل کے جامہ عمل پہننے کے بعد ممکن ہوئی:
1۔ اس ریاست نے تمام امور نجی شعبے کو واگذار کرکے، اپنے اندر جامعاتی اور سائنسی مراکز کو مکمل آزادی اور ترقی کے مواقع اور کھلا معاشی ماحول فراہم کیا۔
2۔ ریاست نے اپنی بننے والی حکومت کو پابند کیا کہ افرادی ذرائع اور افرادی قوت کو صحت و حفظان صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ  (13) کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے کوشش کریں جس کا فطری نتیجہ بہتر اور زیادہ ماہر افرادی قوت کے معرض وجود میں آنے کی صورت میں ہی برآمد ہونا تھا۔
3۔ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق خود بخود، بڑی مقدار میں سائنسی اور فنی وسائل اور اوزاروں کی اسرائیل منتقلی پر منتج ہوئی۔ (14)
4۔ مذکورہ مسائل کے علاوہ، یہودی ریاست کی طرف سے سائنس پر مبنی صنعتوں اور نجی و جامعاتی سائنسی مراکز کی پشت پناہی بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر تھی۔ یہ پشت پناہی اس قدر وسیع تھی کہ ریاست کی اندرونی قومی آمدنی میں سائنسی تحقیقات کے اخراجات دنیا بھر میں سے سب سے زیادہ ہیں۔ (15)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:
1۔ Balfour Declaration
2۔ رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، چاپ اول: 1389، تہران، مرکز آموزش و پژوہشی شہید سپہبد صیاد شیرازی،ص69۔
3۔ Intermediate goods یا درمیانی اشیاء وہ اشیاء یا وہ مال ہے جنہیں دوسری اشیاء کی تیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
4- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص77۔
5۔ ترشاوا پھلوں میں مالٹا،سنگترہ،گریپ فروٹ،چکوترہ،لیموں،اور مٹھا وغیرہ شامل ہیں۔
6- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص74۔
7۔ Economic downturn
8۔https://www.avapress.com/fa/article/5899
9۔ Socialism
10- لفظ ہیستادروت(Histadrut ההסתדרות) ایک عبرانی لفظ ہے جو مخفف ہے "ہیستادروت ہاکلالیت شِل ہاعوودیم بایرتص یسرائیل (ההסתדרות הכללית של עברית העובדים בארץ ישראל‬, HaHistadrut HaKlalit shel HaOvdim B'Eretz Yisrael) کا جس کے معنی انگریزی میں " General organization of Hebrew Workers in the land of Israel" (اور اردو میں "ارض اسرائیل میں عبرانی مزدوروں کی عام تنظیم") کے ہیں۔ سنہ 1969ع‍ میں لفظ "عبرانی" اس میں سے ہٹایا گیا۔ مزدوروں کی یہ تنظیم سنہ 1920ع‍ میں باضابطہ طور پر تشکیل پائی۔ جبکہ اس کا ابتدائی تعلق سنہ 1911ع‍ سے ہے؛ جب ارض فلسطین میں ابتدائی طور فن و حرفت سے تعلق رکھنے والی یہودی تنظیمیں تشکیل پائیں اور ہسیتادروت کی تشکیل کے وقت تک یہودی مزدور ان تنظیموں کی شکل میں منظم تھے۔
ہیستادروت کئی اداروں کا مجموعہ تھی اور خود ایک صدر کمپنی بنام "ہیفرات ہعوفدیم" (Hevrat HaOvdim = חברת העובדים یعنی مزدور کمپنی) کے تابع تھی۔ ہیستادروت کی ایک شاخ کی اہم ترین شاخ "کور" ہے جس میں 100 کارخانوں کے 23000 مزدور اراکین ہیں اور الیکٹرانک کے زیادہ تر کمپنیوں کی مالک ہے۔ لہذا ایک طویل المدت پروگرام میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ تمام تر وسائل اور سہولیات نجی شعبے کے سپرد کی جائیں اور ریاست نجی شعبے کی ہمہ جہت حمایت کرے۔
11۔ Workers' Co-operative Union
12- ساختار دولت صہیونیستی اسرائیل (یہودی ریاست کا ڈھانچہ)، ج2، موسسۃ الدراسسات الفلسطینیۃ، ترجمہ (فارسی) علی جنتی، چاپ اول: 1385، تہران، موسسہ مطالعات و تحقیقات یبن المللی ابرار معاصر ایران، ص129۔
13۔ Social Security
14- وہی ماخذ، ص 143۔
15- وہی ماخذ، ص145۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ بعثت انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تاریخ کے عہدیدار حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی نے فلسطین کے دفاعی پہلو اور قرآن و تاریخ کے حوالے سے فلسطین کی حمایت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: فلسطین کی حمایت کے حوالے سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں قومی نظریہ، نسل پرستانہ نظریہ، دینی اور اسلامی نظریہ، غالب نظام کی بنیاد پر حمایت، تہذیب و تمدن کی بنیاد پر حمایت، اور ہمارا یہاں موضوع سخن بھی یہی تہذیب و تمدن کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم قومی یا نسل پرستانہ نظریہ کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت نہیں کر سکتے، لیکن دینی نظریہ کی بنیاد پر ہم فلسطین کے امور میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح غالب نظام کی بنیاد پر دنیا کے حریت پسند افراد مسئلہ فلسطین کی حمایت کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم یہاں پر یہ کہنا چاہیں گے کہ ایران کی جانب سے فلسطین کی حمایت، قرآن کریم کے اصولوں پر مبنی اسلامی تہذیب کی بنیادوں پر ہے۔
حجت الاسلام محمدی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فلسطین صرف اپنی دینی میراث پر بھروسہ کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے مدمقابل کھڑا نہیں ہو سکتا کہا: یہ اس وجہ سے ہے کہ فلسطین کے اہل سنت کا اکثر دینی ورثہ دین یہود سے متاثر ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تاریخ کے عہدیدار نے فلسطین کے حوالے سے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان بزرگوں کے نظریات اسلامی تہذیب پر مبنی ہیں اس لیے کہ ان کے بیانات پر غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے صہیونی ریاست کے ساتھ کسی طرح کی گفتگو اور مذاکرات کا کوئی دروازہ کھلا نہیں چھوڑا ہے اور صریحاً کہا ہے کہ "اسرائیل کو نابود ہونا چاہیے"۔
انہوں نے زور دے کر کہا: رہبر انقلاب بین الاقوامی قوانین کے سخت پابند ہیں لیکن اس کے باوجود جب صہیونی ریاست کی بات آتی ہے تو واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس رژیم کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اس کے مخالف دھڑوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمدی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ فلسطین کی حمایت دو صورتوں میں قابل تصور ہے ایک "فلسطین فی نفسہ" کی حمایت، اور دوسرے "فلسطین اسرائیل کے مقابلے میں" کی حمایت، کہا: فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں سب سے پہلے گفتگو خود خداوند عالم نے کی ہے۔ اس لیے کہ جب خدا نے اس علاقے میں اپنے نبی کو بھیجنا چاہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ موجودہ فلسطین کے علاقے میں ست اختیار کریں اس طریقے سے اس علاقے میں انبیا کا سلسلہ شروع ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: مسجد الاقصیٰ کی بحث، پیغمبر اکرم کی معراج کا مسئلہ اور یہ کہ یہ سرزمین ایک وقت میں مسلمانوں کا قبلہ رہی ہے یہ سب چیزیں اس سرزمین کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلامی تہذیب اس بات کا باعث بنی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کی حمایت کرے، کہا: فلسطین جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ پر واقع ہے کہ ایشیا، یورپ اور افریقہ کو آپس میں جوڑ رہا ہے اور دوسری طرف سے ایک اقتصادی مرکز بھی پہچانا جاتا ہے اس اعتبار سے جو بھی اس علاقے پر اپنا کنٹرول حاصل کر لے گا بہت آسانی سے اطراف و اکناف پر تسلط قائم کر لے گا اور اپنے افکار و عقائد کو پھیلا سکے گا۔ بنابرایں، یہ علاقہ اسلامی تہذیب سازی میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔
حجت الاسلام محمدی نے اس سوال کے جواب میں کہ مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے بنی اسرائیل کیا وہی بنی اسرائیل ہیں جن کا قرآن میں تذکرہ ہے؟ کہا: مقبوضہ فلسطین کے یہودی وہی قوم ہے جسے قرآن کریم نے "پیغمبروں کی قاتل" کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ اور یہ وہی قوم ہے جس کے ساتھ پیغمبر اکرم نے آغاز اسلام میں سخت رویہ اپنایا اور یہ قوم بھی ہمیشہ کوشش کرتی رہی کہ پیغمبر اکرم قدس تک نہ پہنچ سکیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہودی اپنی آبادی کے لحاظ سے کبھی بھی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لہذا وہ ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ حکمران طبقے کے اندر نفوذ پیدا کریں اور اس طریقے سے اپنی توں کو عملی جامہ پہنائیں۔
ڈاکٹر محمدی نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر اہل بیت اطہار(ع) کے قاتلین کی نسب شناسی کی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ یا خود سلسلہ نسب کے اعتبار سے یہودی تھے یا یہودی سازشوں کا شکار تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی دلیل کہ پیغمبر اکرم کیوں یہودیوں کے سب سے زیادہ مخالف تھے یہ ہے کہ آپ جانتے تھے کہ یہودی اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے آخر میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ جو چیز آج بھی خدا کی آخری حجت اور منجی عالم بشریت کے ظہور کی راہ میں رکاوٹ ہے یہی صہیونیت ہے کہا: فلسطین کی حمایت مکمل طور پر قرآنی اصولوں پرمبنی ہے اس لیے کہ صہیونیت اور صہیونی ریاست مطلقاً باطل ہے اور باطل کے مقابلے میں حق کا دفاع کرنا اسلام کا مسلمہ قانون ہے۔

 


ارض موعود میں فساد و تباہی

قرآن کریم سورہ اسراء کی تیسری آیہ مبارکہ میں خبر دیتا ہے کہ بنی اسرائیل الہی لطف و کرم کے زیر سایہ اور پیغمبران الہی حضرت سلیمان اور حضرت داؤود کے ہمراہ اس سرزمین موعود میں وارد ہوئے (۹۵۰ ق،م) لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس سرزمین پر احکام الہی کو نافذ کریں فساد و تباہی پھیلانے میں مصروف ہو گئے انہوں نے اس سرزمین پر ظلم و ستم کی بساط پھیلائی، الہی نعمتوں کی قدردانی کے بجائے کفران نعمت کیا لہذا خدا نے ان کے ظلم و تشدد کے نتیجے میں انہیں ہلاکت اور عذاب کا وعدہ دیا اور انہیں دردناک سرانجام سے آگاہ کیا۔
قوم یہود کی ہلاکت اور بابل کے زندان میں ان کی اسارت
اس کے بعد قرآن کریم اس سورے کی چوتھی آیت میں بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے عذاب کی خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ بنی اسرائیل کے فساد و تباہی کی وجہ سے ہم نے ان کی ہلاکت کا وعدہ دے دیا ان پر ظالم و جابر بادشاہ مسلط کیا جو اشارہ ہے ’’بخت النصر اور اس کے لشکر‘‘ کی طرف۔ اور اس کے لشکر نے بنی اسرائیل کو سرزمین موعود کے چپے چپے پر تہہ تیغ کیا یہ ایسا عذاب تھا جو بنی اسرائیل کی لجاجت و ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے دامن گیر ہوا۔ (۶۰۸ق،م)
قوم یہود کی رجعت اور معبد سلیمان کی تعمیر نو
قرآن کریم بنی اسرائیل کی ہلاکت اور ارض موعود سے ان کو نکال دئے جانے کی طرف اشارہ  کرنے کے بعد جو در حقیقت اسی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو بابل کے بادشاہ بخت النصر کے ذریعے رخ پایا، بنی اسرائیل کی اس سرزمین میں بازگشت اور ان کی تجدید حیات کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے ایک بار پھر تمہارے اوپر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دئے اور ایک جوان نسل، کثیر اموال اور دیگر نعمتوں کے ذریعے تمہاری مدد کی اور تمہیں نئی حکومت تک پہنچایا۔ یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کے زندان بابل سے ۷۰ سال کے بعد نجات پانے کی طرف جو دراصل ایرانی بادشاہ ’’کوروش‘‘ کے ذریعے انہیں زندان بابل سے نجات ملی اور ان کی نئی نسل کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی، ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کی گئی اور شریعت حضرت موسیٰ کو دوبارہ نافذ کیا گیا۔

بنی اسرائیل کا دوسری بار فساد پھیلانا
بنی اسرائیل کو دین سے دوری اور زمین میں فساد و تباہی پھیلانے کی وجہ سے اللہ نے انہیں جلاوطن اور ۷۰ سال تک زندان بابل میں اسیر کر دیا آخر کار توبہ و استغفار کے بعد زندان سے نجات ملی اور دوبارہ اپنے وطن واپس جانا نصیب ہوا۔ لیکن انسان کی سرشت یہ ہے کہ جب اسے کسی عذاب سے چھٹکارا ملتا ہے تو وہ اس عذاب اور اس کے اسباب کو فراموش کر دیتا ہے اور دوبارہ اسی گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوا ہوتا ہے۔
بنی اسرائیل جب دوبارہ اپنے وطن واپس لوٹے تو شریعت حضرت موسی (ع) پر عمل پیرا ہونے کے بجائے رومیوں کے دین اور آداب و رسوم کے گرویدہ ہو گئے جن بتوں کی وہ پرستش کرتے تھے ان کو اپنا خدا ماننے لگے۔ الہی پیغمبروں حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا جو انہیں توحید و یکتائی کی طرف دعوت دے رہے تھے اور دین الہی کی تعلیمات سے آشنا کر رہے تھے کو جھٹلا کر قتل کر دیا۔ اور رومیوں کے باطل دین کے پیروکار ہو گئے خداوند عالم نے ایک بار پھر انہیں عذاب میں مبتلا کیا اور انہی رومیوں جن کے دین کے وہ پیروکار ہو چکے تھے کے ذریعے انہیں ہلاکت سے دوچار کیا۔
قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے: اس وقت کو یاد کرو جب تمہاری ہلاکت کا دوسرا وعدہ بھی پورا ہو گیا، اور تم ایک بار پھر ظلم و فساد میں ڈوب گئے اور تمہارے چہرے سیاہ ہو گئے۔ یعنی خدائے وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر رومیوں کے خداوں کی پرستش اور ان کے باطل دین کی پیروی اور ان کے ظالم و ستمگر بادشاہ جسے قرآن نے ’’طاغوت‘‘ کا نام دیا ہے کی اطاعت وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے بنی اسرائیل ایک بار عذاب الہی میں مبتلا ہوئے اور ان کے چہرے سیاہ ہو گئے۔
وَلِیُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیرًا ؛ قرآن کریم فرماتا ہے: اس کے بعد جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسری قوم کو مسلط کر دیا تاکہ تمہاری شکلیں بگاڑ دیں۔۔۔
رحمت و مغفرت کا وعدہ
قرآن کریم بنی اسرائیل کو دو مرتبہ عذاب میں مبتلا کرنے کے بعد انہیں رحمت و مغفرت کا وعدہ دیتا ہے یعنی الہی شریعت کو چھوڑ کر بابل و روم کے طاغوتوں کی پیروی نے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ انہیں ذلیل و رسوا کیا اور اللہ نے بھی اپنے دردناک عذاب  کا مزہ انہیں چکھا دیا۔ آخر کار دوسری مرتبہ عذاب الہی کا مزہ چکھنے کے بعد بنی اسرائیل نے توبہ اور استغفار کا راستہ اختیار کیا اور اللہ نے بھی ان کی توبہ قبول کی اور ان پر رحمت و مغرفت کا دروازہ کھول دیا۔
لیکن قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ یہ قوم اس کے بعد بھی اپنی توبہ پر باقی نہیں رہی اور سب رحمت الہی کے دروازے سے داخل نہیں ہوئے انہوں نے حضرت عیسی پر ایمان لانے سے انکار کیا، پیغمبر اسلام کی رسالت کو ماننے سے انکار کیا جبکہ یہ یہودیوں کے لیے ایک غنیمت کا موقع تھا کہ وہ رسول خدا پر ایمان لے آتے اور گزشتہ انبیاء کے ساتھ جو انہوں نے ناروا سلوک کیا انہیں جھٹلایا، انہیں قتل کیا اس دھبے کو اپنے دامن سے پاک کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے پھر وہی تاریخ دھرائی اور اللہ کے اس آخری نبی پر ایمان لانے کے بجائے اس کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوجھل و ابو سفیان جیسوں کا سہارا لے کر اللہ کے آخری نبی کے مد مقابل آگئے۔
قوم یہود کی آخری ہلاکت
قرآن کریم اس بات کا قائل ہے کہ ایک مرتبہ پھر سرزمین موعود پر واپسی بنی اسرائیل اور قوم یہود کے مقدر میں ہے لیکن وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس مقدس سرزمین پر سوائے ظلم و فساد کی بساط پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے لیکن یہ ان کے پاس آخری موقع ہو گا اور اس کے بعد جب عذاب الہی ان کے سوراغ میں آئے گا تو ان کی بساط مکمل طور پر سمٹ جائے گی۔ «وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ اسْکُنُواْ الأَرْضَ فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیفًا» (سوره اسراء/104)
’’اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ اب زمین میں آباد ہو جاؤ پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آ جائے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے۔‘‘
بعض تفسیروں کے مطابق قرآن کی یہ تعبیر ’’وعد الآخرہ‘‘ قوم یہود کی ہلاکت کا آخری وعدہ ہے جو اسی سرزمین موعود میں انجام پائے گا ان کی ’’ارض نعمت‘‘ ’’ارض نقمت‘‘ میں تبدیل ہو جائے گی۔
سورہ اسراء کی آٹھویں آیت میں بھی قرآن کریم بنی اسرائیل کی آخری ہلاکت کے بارے میں فرماتا ہے: «عَسَى رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ حَصِیرًا»
امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کر دے لیکن اگر تم نے دوبارہ فساد کیا تو ہم پھر سزا دیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے ایک قید خانہ بنا دیا ہے۔
یعنی اگر تم نے دوبارہ اس سرزمین موعود پر ظلم و ستم کی داستان شروع کر لی تو ہمارا عذاب تمہارے سوراغ میں پھر آئے گا۔ گویا اس آیت میں قرآن کریم بنی اسرائیل کے انجام کی خبر دیتا ہے اور اس کی نشانی اور علامت انکا ظلم و ستم اور فساد و تباہی ہے۔ یعنی واضح لفظوں میں یوں کہیں کہ اس ارض موعود میں یہودیوں کا ایک بار پھر جمع ہونا اور ان کی طرف سے ظلم و ستم کی داستان دوبارہ رقم کرنا ان کے آخری زوال اور نابودی کی علامت ہے۔
قرآن کریم اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ اب آخری بار خداوند عالم خود قوم یہود کی نابودی کے لیے اقدام کرے گا اس لیے کہ اس نے اس سے قبل دو مرتبہ دوسروں کو ان کی نابودی کے لیے بھیجا ایک مرتبہ بادشاہ بابل کو اور دوسری مرتبہ بادشاہ روم کو لیکن تیسری اور آخری مرتبہ جو عذاب الہی ان کے دامن گیر ہو گا اور ان کی نابودی یقینی ہو گی وہ خدا کے صالح بندوں اور مومنین کے ذریعے ہو گی اور یہ ایسی نابودی ہو گی کہ اس کے بعد وہ اس سرزمین کا رخ نہیں کر پائیں گے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن کریم بنی اسرائیل اور قوم یہود جو حضرت موسی (ع) کے واسطے نجات یافتہ ہوئے اور اللہ کی ان پر نعمتیں نازل ہوئی کی کمزوریوں کو بیان کرتا ہے کہ یہ بچھڑے کی پوجا کرنے لگے اللہ کی نشانیوں کا انکار کرنے لگے ان کے دل پتھر کے مانند ہو گئے انہوں نے انبیائے بنی اسرائیل کا قتل کیا اور آخر کار خداوند عالم کے غضب کا نشانہ بنے اور خدا نے انہیں ذلت و رسوائی سے دوچار کیا۔
مقدمہ
قرآن کریم قوم یہود کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے۔ عصر حاضر میں بھی اس کی مثال یہودی ریاست ہے جو عالم اسلام کی بدترین دشمن ہے۔ اس یہودی ریاست اور قوم یہود کا سرانجام کیا ہو گا؟ اس کو جاننے کے لیے درج ذیل تحریر ملاحظہ فرمائیں۔
قرآن کریم سورہ یوسف میں بنی اسرائیل کی پیدائش اور کنعان سے سرزمین مصر ان کی ہجرت کے واقعات کو بیان کرتا ہے، سورہ یوسف کے بعد سورہ اسراء میں ان کی گمراہی اور سرزمین موعود میں ان کے ظلم و فساد اور ان کی وعدہ خلافیوں کا تذکرہ کرتا ہے اور آخر میں ان پر نازل ہونے والے الہی قہر و غضب کی خبر دیتا ہے کہ اس قوم نے جو عہد شکنیاں کیں، زمین میں جو فساد و تباہی پھیلائی اس کی وجہ سے ان کی ’’ارض موعود‘‘ ’’ارض ہلاکت‘‘ میں تبدیل ہو گئی۔ اور ان کا سرانجام بھی ابلیس کے جیسا انجام ہوا کہ اس نے بھی الہی نعمتوں کی قدردانی نہیں کی اور طغیان و تکبر سے کام لیا اور راندہ درگاہ ہو گیا۔ جیسا کہ سورہ بقرہ میں بھی ابلیس کے قصے کے بعد بنی اسرائیل کے عناد و استکبار کا تذکرہ ہوا ہے کہ یہ قوم بھی مجسم شیطان اور دجال زمانہ ہے۔
سورہ اسراء جس کا دوسرا نام ہی بنی اسرائیل ہے قرآن کریم کے حیرت انگیز سوروں میں سے ایک ہے اور اس میں بہت ہی اہم نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام کا ارض موعود میں داخلہ
خداوند عالم اس سورہ کی پہلی آیت جو لفظ ’’سبحان‘‘ سے شروع ہوتی ہے اور اس کے مطالب کی عظمت اور اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہے میں پیغمبر اسلام کے ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ کے سفر اور انہیں الہی نشانیوں کو دکھلانے کی خبر دیتا ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ خداوند عالم اپنے نبی کو سرزمین مکہ؛ جو توحید ابرہیمی کا مرکز ہے سے پیغمبروں کی ارض موعود جو سرزمین فلسطین ہے کا سفر کرواتا ہے اور در حقیقت ان دونوں سرزمینوں پر اپنے نبی کی حاکمیت کو بیان کرتا ہے جیسا کہ احادیث معراج سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر تمام پیغمبر رسول خدا(ص) کے حضور میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ کی رسالت و امامت کا اقرار کرتے ہیں اور تمام انبیائے الہی کے واسطے اس سرزمین موعود پر امت واحدہ تشکیل پاتی ہے گویا وہ سرزمین جس پر تمام پیغمبر حکومت الہی کی تشکیل اور شریعت الہی کے نفاذ کے لیے سعی و تلاش کرتے رہے اس پر پیغمبر اسلام کی امامت میں امت واحدہ تشکیل پانے کی نوید دیتے ہیں۔
لہذا اس سورہ کی سب سے پہلی آیت اس سرزمین میں عدل الہی کے قیام کی بشارت دیتی ہے اور پیغمبر اسلام اور ان کے اصحاب و انصار و ان کے کلمہ گو کو اس سرزمین کے وارث قرار دیتی ہے۔
تورات کا نزول عدالت کی حاکمیت کے لیے
قرآن کریم اس سورہ مبارکہ کی دوسری آیت میں حضرت موسی علیہ السلام کی رسالت کا تذکرہ کرتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ خداوند عالم نے موسی کو مقام نبوت پر فائز کیا اور ان پر تورات نازل کی اور تورات کو بنی اسرائیل کی ہدایت کا منشور قرار دیا تاکہ وہ شریعت الہی کا نفاذ عمل میں لائیں، تورات پر عمل کریں، شریعت کو اپنا حاکم بنائیں اور خدا کو اپنا مولا اور ولی قرار دیں۔ (۱۴۴۷ ق۔ م)

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالم انسانیت کے بد ترین دشمن یہودی ہیں قرآن کریم نے بھی اس بات اعلان کیا ہے اور تاریخ و تجربہ نے بھی اس چیز کو ثابت کیا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ آج کی دنیا میں یہودی قوم دوسری قوموں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہے اگر ہم اس قوم کی گزشتہ تاریخ پر بھی نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ دیگر قومیں کس قدر اس ستمگر قوم کے ظلم و تشدد کا شکار رہی ہیں۔
اس مختصر تحریر میں ہم قرآن کریم کی نگاہ سے قوم یہود کی چند خصلتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پروردگارعالم نے خود قرآن میں بیان کی ہیں۔
قرآن کریم میں چار سو سے زیادہ آیتیں بنی اسرائیل کے بارے میں ہیں ان آیتوں میں بنی اسرائیل کے قصوں کے علاوہ دوسری قوموں کی نسبت پائی جانے والی ان کی دشمنی کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ ان تمام آیتوں کا جائزہ لینا ایک مستقل اور مفصل موضوع ہے اور اس تحریر میں اس کی گنجائش نہیں لہذا صرف بعض عناوین کی طرف یہاں اشارہ کرتے ہیں:
الف؛ تاریخی خصلتیں (۱)
۱، دین سے بغاوت اور سامری کے بچھڑے کی پرستش
۲، خدا کی جسمانیت پر عقیدہ اور خدا کی رؤیت کا مطالبہ
۳، صحراؤں میں چالیس سال تک جلاوطنی کی سزا بھگتنا
۴، خدا اور حضرت موسی (ع) کے ساتھ ہٹ دھرمی اور لجاجت
۵، انبیاء اور پیغمبروں کا قتل
۶، اسیروں کا قتل جن کے قتل سے منع کیا گیا تھا
۷، سنیچر کے دن کی حرمت کی اطاعت نہ کرنا
۸، ان میں بعض کا بندر کی شکل میں تبدیل ہونا (۲)
۹، ربا، سود اور چوری کو جائز قرار دینا
۱۰، کلمات الہی میں تحریف پیدا کرنا (۳)
۱۱، اس بات پر عقیدہ رکھنا کہ خدا کا ہاتھ نعوذ باللہ مفلوج ہے (۴)
۱۲، حق کی پہچان کے بعد اس کی پیروی نہ کرنا
۱۳، آیات الہی کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان کا انکار کرنا(۵)
۱۴، آسمانی بجلی گرنے کے بعد سب کو ایک ساتھ موت آنا اور دوبارہ زندگی ملنا (۶)
۱۵، گناہوں کی وجہ سے شقاوت قلب کا پیدا ہونا (۷)
۱۶، اس بات پر عقیدہ کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خدا انہیں عذاب نہیں کرے گا۔ (۸)
یہودیوں کی ذاتی خصلتیں قرآن کریم کی روشنی میں
۱، مادہ پرستی
قرآن کریم نے قوم یہود کی ایک خصلت یہ بیان کی ہے کہ وہ مادہ پرست ہیں یہاں تک کہ وہ خدا کو بھی اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَکْبَرَ مِنْ ذَٰلِکَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ )9(
’’انہوں نے موسیٰ سے اس سے بڑی مانگ کی اور کہا ہمیں خدا کو آشکارا دکھلاؤ پس ان کے ظلم کی وجہ سے آسمانی بجلی نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا‘‘۔
۲، مال و ثروت کی لالچ
پروردگار عالم نے قرآن کریم میں یہودیوں کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ مال دنیا کی نسبت بے حد حریص اور لالچی ہیں۔
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى‌‌ حَیاةٍ وَ مِنَ الَّذینَ أَشْرَکُوا یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَ ۔۔۔ (بقرہ ۹۶)
’’اے رسول آپ دیکھیں گے کہ یہ (یہودی) زندگی کے سب سے زیادہ حریص ہیں اور بعض مشرکین تو یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہزار برس کی عمر دی جائے جبکہ یہ ہزار برس بھی زندہ رہیں تو طول حیات انہیں عذاب الہی سے نہیں بچا سکتا‘‘
۳، مومنوں اور مسلمانوں سے دشمنی و عداوت
قرآن کریم سورہ مائدہ کی ۸۲ ویں آیت میں فرماتا ہے: لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا  ’’آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں‘‘۔
آخری دو خصلتوں کو آج کے یہودیوں اور صہیونیوں میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ جو کچھ اس وقت دنیا میں خصوصا بیت المقدس میں ہو رہا ہے وہ یہودیوں کی مسلمانوں اور اسلامی آثار کی نسبت شدید ترین دشمنی کا نمونہ ہے۔ سورہ آل عمران کی ۹۹ آیت میں خداوند عالم یہودیوں کی ملامت کرتے ہوئے فرماتا ہے: قُلْ یَا أَهْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
’’کہیے! اے اہل کتاب کیوں صاحبان ایمان کو راہ خدا سے روکتے ہو اور اس کی کجی تلاش کرتے ہو جبکہ تم خود اس کی صحت کے گواہ ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے‘‘۔
یہودی اپنے برے مقاصد حاصل کرنے کے لیے عام طور پر خفیہ سازشیں اور خطرناک پروپیگنڈے کرتے ہیں جن کے ذریعے نادان اور سادہ لوح افراد کو با آسانی شکار کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے خداوند عالم نے بعد والی آیت میں مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ دشمن کی زہر آلود سازشوں کا شکار نہ بنیں اور انہیں اپنے اندر نفوذ پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں۔ (۱۰)
صدر اسلام کے مسلمانوں کی نسبت قوم یہود کی عداوتوں اور خفیہ سازشوں کے بے شمار نمونے تاریخ میں موجود ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ انہوں نے مومنین کی سادہ لوحی اور غفلت سے بخوبی فائدہ اٹھایا۔ مثال کے طور پر جنگ خندق میں وہ منافقین اور یہودی جو پیغمبر اکرم کے حکم سے مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے انہوں نے دشمنان اسلام کو تحریک کیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوں اور وہ ان کی پشت پناہی کریں۔ انہوں نے کفار سے کہا: تم مطمئن رہو کہ تم حق پر ہو اور تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے(۱۱) اس کے بعد بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر کے یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کسی پر ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ (۱۲)
لیکن خداوند عالم نے انہیں ہر مقام پر ذلیل و رسوا کیا ’’ضربت الیھم الذلۃ‘‘ ذلت اور رسوائی کی طوق ان کی گلے میں لٹکا دی جو بھی قوم گناہوں میں غرق ہو جائے گی دوسروں کے حقوق پر کرے گی اس کا سرانجام ذلت و رسوائی ہو گا۔ (۱۳)
آج بھی یہ قوم مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے اور سازشیں کرنے میں سرفہرست ہے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو ان کے آشیانوں اور کاشانوں سے باہر نکال کر ان کا قتل عام کر رہی ہے ان پر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کر رہی ہے صرف دنیا کی لالچ میں اقتدار کی لالچ میں ملک اور زمین کی لالچ میں۔ لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ مستضعفین زمین کے وارث بنیں گے اور ظالم و ستمگر ذلیل و خوار ہو کر نابود ہو جائیں گے۔ (۱۴)
حوالہ جات
1. تفسیر نمونه و المیزان، ذیل آیات 153- 161، سوره نساء
2. نساء(4)/47
3. بقره(2)/79
4. مائده(5)/64
5. عنکبوت(29)/32
6. بقره(2)/55
7. بقره،(2)/74
8. بقره(2)/95
9. نساء(4)/153
10. ر.ک: نفسیر نمونه، ج3، ص 23- 22
11. ر.ک: تاریخ اسلام، محلاتی، ج1، ص 132- 131
12. ر.ک : تاریخ اسلام، منتظر القائم، صص 214- 220
1۳. ر.ک: تفسیر نمونه،ج 3، ص 54
1۴. وہی، ج23، ص 499



خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالیہ دنوں میں، امریکی ناول نگار ڈین ٹز (Dean Koontz)  کے ناول "اندھیرے کی آنکھیں" کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے کہ اس نے 40 سال قبل ’’ووہان ۴۰۰‘‘ نامی کورونا وائرس کے پھیلنے کی پیش گوئی کی تھی۔
ڈین ٹیز کا ناول ایک خیالی ناول ہے۔ کورونا وائرس آخر امان میں دنیا بھر میں بہت سارے لوگوں کو ہلاک کرنے والے آرماجیڈن وائرس (The Armageddon virus)  کی صنف میں سے ہے اور گزشتہ دہائیوں سے کئی فلمیں اور ٹیلی ویژن سیریز اور داستانیں اسی موضوع پر بنائی جا چکی ہیں۔  لہذا ڈین ٹز نے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے اور اس کی ایک طولانی تاریخ ہے۔
حالیہ دنوں میں ڈین ٹیز کی مقبولیت کی دو وجوہات ہیں: ایک ، اس وائرس کے پھیلنے کا سال ۲۰۲۰ ہے، دوسری ’’ووہان ۴۰۰‘‘ کے نام کا انتخاب جو چین کا شہر ہے جہاں سے اس وقت یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا ہے۔
۲۰۲۰ آخری زمانے کے وائرس کے پھیلاؤ کا سال بھی کوئی ڈین ٹز کی ایجاد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے قبل بھی کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے آخری زمانے کے عنوان سے مختلف سال بیان کئے ہیں جن میں سے ڈین ڈیکسن امریکی منجمہ کا نام لیا جا سکتا ہے انہوں نے بھی ۲۰۲۰ کو آخری زمانے کا سال قرار دیا۔
’’ووہان ۴۰۰ وائرس‘‘ کے نام کا انتخاب بھی کوئی ڈین کانٹز کی ہی پیش گوئی نہیں ہے۔ ڈین کانٹز کی کتاب پہلی بار ۱۹۸۱ میں منظر عام پر آئی، یہ وہ زمانہ تھا جب رونالڈ ریگن کی صدارت کا آغاز ہوا اور امریکہ اور سوویت یونین کے دو بلاکوں کے درمیان زبردست سرد جنگ جاری تھی۔ امریکہ میں ’برائی‘ کو کمیونسٹ معاشرے سے نسبت دے کر اس کے بارے میں قابل توجہ فلمیں بنائی اور کہانیاں لکھی جا رہی تھیں۔ ڈین ٹیز نے اپنی کتاب میں جو اپنے تخلص ’لی نکولس‘ کے نام سے شائع کی میں آخری زمانے کے وائرس کو سوویت یونین کی طرف منسوب کیا۔ وہ پہلے ایڈیشن میں اس کا نام ’گورکی ۴۰۰‘ رکھتے ہیں جو سوویت یونین کا اس دور میں اہم تحقیقاتی شہر تھا۔
ڈین ٹز کی کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۹ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے اپنے اصلی نام کا استعمال کیا۔ یہ سوویت یونین کے خاتمے کا دور تھا اور اس زمانے میں سوویت یونین سے خوف کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ لہذا ڈین ٹز نے اس ایڈیشن میں وائرس کو ووہان ۴۰۰ کے نام سے بدل دیا۔ اور اس کا مرکز چین کا شہر ’ووہان‘ قرار دیا جو ۱۹۶۰ سے چین کا علمی اور تحقیقاتی شہر کہلاتا تھا۔ چین نے چونکہ اس دور میں مغرب پر قبضہ جمانے کی ابھی نئی پالیسیوں کا آغاز نہیں کیا تھا۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین کے حالات منعکس کرنے میں مغربی میڈیا کی یہ بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ فلسطین کے واقعات کو سنسر کر کے بیان کرے جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے لئے یہی میڈیا ایسے الفاظ انتخاب کرتا ہے جن سے تشدد اور دھشتگردی کا مفہوم واضح نہ ہو۔ بی بی سی جسکا یہ دعویٰ ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ نیوز ایجنسی ہے وہ کبھی بھی اسرائیل کے لیے ’’ٹرور‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کرتی چونکہ اس لفظ سے تشدد اور دھشت کا مفہوم ذہن میں منتقل ہوتا ہے جبکہ اسی لفظ کو ہمیشہ ان نہتے فلسطینیوں کے بارے میں استعمال کرتی ہے جو اپنی جان و مال کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں انہیں عام طور پر دھشتگرد پہچنواتی ہے۔
مثال کے طور پر امریکہ کا معروف اخبار نیویارک ٹائمز، یہودیوں کے خلاف نازیوں کی جھوٹی جارحیت کے بارے میں ہر طرح کا نازیبا لفظ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا اور تمام من گھڑت جزئیات کو بھی بیان کرتا ہے لیکن یہی اخبار فلسطین اور غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں کئے جانے والے قتل عام کا تذکرہ تک بھی نہیں کرتا اور کہتا ہے: ’’حالیہ مہینوں میں اسرائیل کی جانب سے کچھ خاص افراد کو ٹارگٹ بنائے جانے نے فلسطینی عوام کو غضبناک کر دیا ہے‘‘   دوسری جگہ پر فلسطینی شخصیتوں کے ٹرور کئے جانے کو ’’ت میں تبدیلی‘‘ کے الفاظ سے بیان کرتا ہے۔
اسرائیلی ریاست اپنے حامی ذرائع ابلاغ میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے بارے میں؛ ’’صفایا کرنا، روکنا، یہودیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات، بامقصد ٹارگٹ کلنگ‘‘ جیسی تعبیریں استعمال کرواتی ہے۔
مثال کے طور پر یروشلیم پوسٹ   نیوز ایجنسی لکھتی ہے: سلامتی کابینہ کے رکن وزیر ’’ماٹن ویلنائے‘‘ نے آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہدفمند ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘‘۔
اسرائیل کے بارے میں استعمال کئے جانے والے الفاظ میں میڈیا کی باریک بینی اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیل یا عالمی صہیونیت، دنیا والوں کے ذہنوں میں اپنی مظلومیت اور بے گناہی کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتی ہے۔  

 



شائد آپ نے تاحال موساد کے بارے میں کچھ نہیں سنا ہو گا۔ موساد وہی اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کا نام ہے کہ جس کا اصلی کام، بین الاقوامی سطح پر جاسوسی کرنا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دسیوں ہزار جاسوس اپنے گھروں کو واپس پلٹے لیکن ان میں بہت سارے جاسوس ایسے بھی تھے جو اپنے ملکوں میں واپس جانے کے بجائے اپنے خیال کے مطابق ’’سرزمین موعود‘‘ کی طرف چلے گئے اور اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ’’بن گورون‘‘ کے حکم سے ان کی ہاگانا (Haganah) نامی فوج  میں شامل ہو گئے اور اسی فوج سے موساد گروہ تشکیل دیا گیا۔
یہودی ایجنسیوں کی رہنمائی میں کام کرنے والی فوج ہاگانا، کئی فوج مانند ٹولوں جیسے بیتار، ائرگون اور لحی وغیرہ کو وجود میں لانے کا باعث بنی کہ جنہوں نے ’’دریاسین‘‘ اور دو گاؤں ’’اللد‘‘ اور ’’الرملہ‘‘ میں جارحیت کی۔ حیفا میں بم بلاسٹ کروائے ’’ملک داؤود‘‘ نامی ہوٹل کو منہدم کیا۔ ان ٹولوں کے جرائم اس قدر بھیانک تھے کہ 1948 میں اسرائیل کی فوج جب یافا شہر میں داخل ہوئی تو فلسطینیوں نے اپنی جانوں کے خوف سے گھر بار چھوڑ دئے اور شہر سے بھاگ گئے۔ اور اس شہر پر صہیونیوں نے غاصبانہ کر لیا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ موساد کے سابق رکن اور کتاب( by way of deception) کے رائٹر ’’وکٹر اسٹرفسکی‘‘ سے موساد کے ذریعے کئے جانے والے قتل عام کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو انہوں نامہ نگاروں کو کوئی جواب نہیں دیا اور صرف اپنا استعفیٰ دے کر موساد کے وحشیانہ قتل سے اظہار نفرت کا اعلان کیا۔
تاہم موساد اسرائیلی حکومت کو سکیورٹی دینے کے بہانے، کئی افراد کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر چکی ہے جن میں محمود المبوح، شیخ احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی، سعید صیام، جرمنی کے ہائنتز کروگ، ہربرتز کوکرز، محمود ہمشاری، ڈاکٹر یحیٰ المشاد، عماد مغنیہ اور فتحی شقاقی وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب امریکہ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ” (۱) نیویارک کی بنگ ہمٹن یونیورسٹی (۲) کے ممتاز پروفیسر جیمز پیٹراس” (۳) کی کاوش ہے۔ انھوں نے اب تک ۶۳ کتابیں لکھی ہیں اور ان کے کتب کے تراجم ۲۹ زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔
اس کتاب میں مشرق وسطی کے سلسلے میں امریکی پالیسیوں میں یہودی لابی کے اثر و رسوخ اور تسلط کی تصویر کشی ہوئی ہے۔ مؤلف کا خیال ہے کہ یہودی لابی کے اثر و رسوخ کی جڑیں امریکہ کے نہایت بااثر، طاقتور اور خوشحال ترین خاندانوں کے ساتھ یہودی خاندانوں کے غیر معمولی تعلقات میں پیوست ہیں۔ مزید برآں یہودی لابیوں اور نظرپردازوں نے دباؤ بڑھانے، بلیک میل کرنے اور رائے عامہ کی حمایت اپنی جانب مبذول کروا کر اپنی فکری برتری کو بھی منوا لیا ہے۔
جیمز پیٹراس لکھتے ہیں کہ آج کے معاشروں میں وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بحث و مباحثے کی آزادی اور اسرائیلی لابیوں پر علی الاعلان تنقید کے لئے تحریک چلائی جائے۔ ان کا خیال ہے کہ عالمی معاشروں کی خارجہ پالیسیوں کا نئے سرے سے اور زیادہ غور و فکر کے ساتھ، جائزہ لیا جائے۔ اور انھوں نے اپنی کتاب امریکہ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ” کو اسی مقصد سے تالیف کیا ہے۔


 
کتاب امریکہ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ” چار حصوں اور ۱۴ فصلوں پر مشتمل ہے۔ مؤلف ابتدائی حصے کو امریکہ میں اسرائیل کی طاقت” کے عنوان سے، امریکہ کو عراق کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنے میں اسرائیل کے حامی امریکی حکام اور یہودی لابیوں کے کردار پر زور دیتے ہیں؛ اور مختلف فصلوں میں بین الاقوامی معاشروں میں امریکہ کی طرف سے جنگوں کے اسباب فراہم کئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
دوسرے حصے میں، شکنجے (ٹارچر)، دہشت گردی اور نسل کشی کو امریکہ اور یہودی ریاست کی سلطنت سازی کے عمل کا ناقابل جدائی اجزاء کے طور پر زیر بحث لاتے ہیں۔ اس حصے میں ایک فصل کو غزہ پر اسرائیلیوں کی وحشیانہ یلغار سے مختص کرتے ہیں اور اسے ہولناک بمباریوں کے ذریعے ایک نسل کو فنا کرنے اور ایک علاقے کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی اسرائیلی کوششوں کا نمونہ قرار دیتے ہیں۔
جیمز پیٹراس تیسرے حصے میں نفسیاتی جنگ کے شعبے نیز مزاحمت کی اخلاقی بنیادوں پر بحث کرتے ہیں۔ انھوں نے اس بحث کے ضمن میں دہشت گردی کے ماہرین” نیز یہودی لابی کے کردار کا بھی جائزہ لیا ہے۔ پیٹراس کی رائے کے مطابق، دہشت گردی کے ماہرین شکنجے (ٹارچر) اور تشدد آمیز اقدامات، اجتماعی اور خودسرانہ گرفتاریوں، پورے عوام اور مختلف معاشروں کو بیک وقت سزا دینے جیسے اقدامات کا جواز فراہم کرنے کے لئے صہونیت اور استکبار کے دشمنوں کو غیر انسانی اوصاف اور خصوصیات کا مم ٹہراتے ہیں۔
کتاب کا چوتھا اور آخری حصہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ کی استکباری پالیسیوں کی تشکیل اور استعماری منصوبہ سازیوں میں یہودی لابی کی اہمیت اور صہیونی لابیوں سے اس کے رابطوں کے جائزے پر مشتمل ہے؛ اور کتاب کی آخری فصل میں امریکہ کی مشرق وسطائی پالیسیوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ (۴)
حواشی
[۱]POWER OF ISRAEL IN THE UNITED STATES
[۲] Binghamton University
[۳] James Petras
[۴] www.coalitionoftheobvious.com/17112929


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالیہ برسوں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، ہندوستان کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کے اعلی درجے کے دفاعی سسٹم اور فوجی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائے۔ ہندوستان ان ممالک سے رشتہ مضبوط کرنا چاہتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے آگے ہیں اور چونکہ اسرائیل بھی ایک ترقی یافتہ ریاست کہلاتی ہے اس لیے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ اور پھر ہندوستان اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل امریکہ کے نزدیک خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا درحقیقت امریکہ سے قربت حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب سے اسرائیل بھی ایشیائی ممالک مخصوصا ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی توسیع کو اپنے خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہندوستان کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ وزن دار ملک سمجھتا ہے اس لیے کہ پاکستان تنہا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت کا مالک ہے اور اس پر دباؤ رکھنے کے لیے اسرائیل کا ہندوستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا گویا اس کی مجبوری بھی ہے اور پھر پاکستان اور مسلمانوں کو دھشتگرد قرار دے کر اسرائیل آسانی سے ہندوستان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بن گوریان کی ہندوستان کے بارے میں گفتگو آپ کو یاد ہو گی جس میں انہوں نے کہا تھا: ’’میرے خیال میں ہندوستان وہ بہترین جگہ ہے جہاں سے ہم مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی بخوبی رہنمائی کر سکتے ہیں‘‘۔ بعض اسرائیلی محققین جیسے ’آبراہام سیگال‘ اور ’ہیری ایسریگ‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ہندوستان اسرائیل کے نزدیک ایک عظیم اخروٹ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اسرائیل نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اب اسے صرف توڑنا باقی ہے‘‘۔ (ابوالحسنی، ۱۳۷۷؛ ۴۴۰)
بھارت اور اسرائیل تعلقات پر تاریخی نظر
اگر چہ ہندوستان نے اسرائیل کو مستقل ریاست کے عنوان سے ۱۹۵۰ میں تسلیم کر لیا لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ ی روابط قائم نہیں کئے۔ ہندوستان میں سرگرم سامراجیت مخالف تنظیمیں اس بات کے آڑے تھیں کہ بھارت اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ ایک طرف سے ہندوستان کے مسلمان فلسطینی عوام کی حمایت کے خواہاں تھے اور دوسری طرف سے عرب ممالک بھی ناوابستہ تحریک کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اسرائیل کے قریب نہ جائے۔ لیکن ۱۹۶۲ میں بھارت چین جنگ کے بعد ہندوستان کو اپنی دفاعی قوت مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کی فوجی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ۱۹۹۲ تک ی روابط محدود اور خفیہ رہے۔ آخر کار ۱۹۹۲ میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہندوستان نے اپنی نئی اسٹریٹجک پالیسیوں کے تحت ان تعلقات کو ایک نئی جہت دی اور صہیونی ریاست کے ساتھ ی روابطہ کو وسیع اور علنی کر دیا۔ (ملکی، ۱۳۸۹؛ ۴۷)
۱۹۹۲ میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتے ہی غیر معمولی حجم کے دوطرفہ تجارتی اور سکیورٹی معاہدے شروع ہو گئے اور حالیہ دنوں میں یہ روابط سکیورٹی تعاون، سیٹلائٹ سسٹم، پیشرفتہ میزائل، ایٹمی سرگرمیوں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے معاہدوں کی صورت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر چہ ہندوستان اور اسرائیل کے سامنے پائے جانے والے خطرات ایک جیسے نہیں ہیں اور ان کا کوئی مشترکہ دشمن نہیں ہے اس کے باوجود دونوں ملک اپنے دفاعی سسٹم کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے نزدیک اسرائیل جدید دفاعی سسٹم کو اپڈیت کرنے کے لیے ایک قابل بھروسہ ملک ہے اور اسرائیل کے لیے بھی ایشیا میں تزویری اعتبار سے بھارت ایک مستحکم اتحادی شمار ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ہندو نسل پرستی کے زور پکڑ جانے اور بھارتیا جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے بھارت و اسرائیل کے درمیان روابط ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ مثال کے طور پر ۱۹۹۱، ۹۲ میں فوجی اور دفاعی تعاون کے حوالے سے تقریبا دو ملکوں کے درمیان لگ بھگ پچاس ملاقاتیں اور معاہدے ہوئے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی معیشتی مشکلات اور اسرائیلی ساخت کے ہتھیاروں کی نامرغوب کیفیت کے باوجود دونوں ملکوں میں بعض فوجی ساز و سامان جیسے ہلکے طیارے، ارجن ٹینک (مرکاوا) پریٹوی میزائل(جریکو ۱)، (جریکو ۲) نیز مشترکہ فوجی تحقیقات اور ٹیکنالوجی کا رد و بدل کیا گیا۔ (کلانتری، ۱۳۸۸؛ ۹)
چنانچہ اگر ہندوستان اور اسرائیل کے گہرے تعلقات اور اس کے ایران و ہند تاریخی روابط پر پڑنے والے اثرات کو مزید گہرائی کی نگاہ سے دیکھا جائے تو درج ذیل تین بنیادی سوالوں کے جوابات دینا ضروری ہوں گے:
۱؛ کیا حقیقت میں اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات تزویری ہیں؟
۲؛ اس حساسیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو ایران اور عرب ممالک تل ابیب و نئی دہلی کے روابط کی نسبت رکھتے ہیں ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تزویری روابط بڑھانے کی وجوہات کیا ہیں؟
۳؛ کیا ہندوستان کا اسرائیل سے اسٹریٹجک روابط بڑھانے کا مقصد امریکہ سے نزدیک ہونا ہے؟
مذکورہ سوالات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان علاقے میں خصوصا چین کے مقابلے میں بڑی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا اسرائیل اس کے لیے فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے اعتبار سے بہترین آپشن ہے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی یہودیوں کا اپنے مفاد تک پہنچنے کے لیے ایک طریقہ کار یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں طرح طرح کی انجمنیں اور تنظیمیں تشکیل دیتے ہیں۔ تنظیمیں بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ خفیہ اور غیر محسوس طریقے سے اپنے مفاد تک پہنچ سکیں اور دنیا میں ان کی نسبت کوئی بدگمانی اور غلط سوچ پیدا نہ ہو۔
یہ تنظیم ۱۹۱۳ میں ہارس۔ ام۔ کالن [۱] کے ذریعے وجود میں آئی۔ ’’پروشیم‘‘ مذہبی بنیاد پرستوں کی تحریک کا ایک حصہ تھا جو فکری طور پر ’’حسیدی فرقے‘‘(ایک یہودی فرقہ جو انتہائی طور مذہبی بنیاد پرست اور قدامت پرست تھا) سے وابستہ تھے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد امریکہ سمیت دیگر ممالک میں صہیونیت کی ترویج کرنا تھا۔ اسی وجہ سے کالن نے ان افراد کو اس تنظیم کا رکن بنایا جنہوں نے صہیونی مقاصد کی حمایت کا بھرپور اعلان کیا اور ان کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر کوشاں رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
پروشیم عملی میدان میں گوریلا فورس کی طرح خفیہ تنظیم تھی جو خفیہ اور پوشیدہ طریقے سے تمداروں پر اپنا ی اثر و رسوخ پیدا کرنے کی غرض سے وجود میں لائی گئی تھی۔ لہذا کبھی بھی یہ تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ کیسے امریکہ کے سابق صدر ویلسن کے قریبی دوست ’’لوئیس برانڈیس‘‘ [۲] (یہودی زادہ) سپریم کورٹ کی سربراہی سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا کیسے ’’کالن‘‘ پہلی عالمی جنگ کے سلسلے میں اسرائیل حکومت کی تشکیل کی تجویز برطانیہ کے وزیر خارجہ کو دیتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ’’بالفور اعلان‘‘ کیا جاتا ہے۔
بطور مثال جب برطانوی حکومت پہلی جنگ عظیم میں گرفتار تھی تو جنگ میں برطانیہ کی کمزوری اور شکست باعث بنی کہ ایک دن میں تقریبا ۶۰ ہزار لوگ مارے گئے۔ صہیونیوں نے اس کمزوری سے فائڈہ اٹھایا اور برطانیہ کی حمایت میں یہودی ریاست وجود میں لانے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودی حکومت کی تشکیل کا نظریہ، پروشیم کے بانی کالن نے پیش کیا۔ انہوں نے دسمبر ۱۹۱۵ میں اپنے ایک بانفوذ دوست کے ذریعے اپنی تجویز کو برطانیہ کے وزیر خارجہ تک پہنچایا۔ کالن کی تجویز قبول کئے جانے کے بعد پروشیم تنظیم کے سربراہ’’لوئیس برانڈس‘‘ نے برطانیہ کے یہودیوں اور امریکہ کے صدر کے درمیان تعلقات کا پلیٹ فارم ہموار کرکے امریکی حکومت کو عملی طور پر برطانیہ کی حمایت میں جنگ میں شامل کر دیا۔[۳]
حواشی
[۱] Horacc. M .kallen
[۲] Louis Brandis
[۳] کتاب:  Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: گزشتہ سے پیوستہ//
ڈاکٹر امیر عبد اللٰھیان کے ساتھ یمن کے موضوع پر اہم گفتگو:
سوال: پس امریکی کسی صورت میں سعودیوں پر اعتماد نہیں رکھتے، آپ جب نائب وزیر خارجہ کے طور پر سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے، تو اس وقت کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے آپ سے کہا تھا کہ ہم امریکیوں پر اعتماد نہیں رکھتے”، یہ کیونکر ممکن ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے پر اعتماد بھی نہیں رکھتے اور ساتھ ساتھ بھی رہتے ہیں۔
جواب: عرب ممالک میں میرا تجربہ بتاتا ہے کہ یہاں کے حکام جب ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہیں، ان کا موقف کچھ ہوتا ہے، جب بین الاقوامی فورموں میں بات کرتے ہیں، ان کا موقف کچھ اور ہوتا ہے اور جب آپ سے سفارتی اور رسمی بات کرتے ہیں تو ان کا موقف بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جناب سعود الفیصل نے وہ موقف علاقے کی صورت حال کے زیر اثر اپنایا تھا۔
امریکیوں نے حسنی مبارک کا ساتھ کیوں چھوڑا؟ جب انھوں نے دیکھا کہ انہیں مزید برسراقتدار نہیں رکھ سکتے؛ میں صرف ایک مثال لاتا ہوں تاکہ آپ دیکھ لیں کہ ی میدان میں انجام پانے والے کسی کام میں اس رویے کا اثر کتنا زیادہ ہے؟ مجھے یاد ہے کہ جب شام کے بحران میں شامی افواج اور ہمارے عسکری مشیر اور حزب اللہ مل کر کسی ایسے علاقے میں داخل ہوتے تھے ان لوگوں کو چھڑانے کے لئے جنہیں مسلح دہشت گردوں نے یرغمال بنایا ہوتا تھا، اور جب جبہۃ النصرہ سے لے کر داعش تک کے دہشت گرد گھیرے میں آجاتے تھے، تو تکفیری دہشت گردی کا پیکر تشکیل دینے والے یہ دہشت گرد پیغام دے دیتے تھے کہ ہم بھاری ہتھیار تحویل میں دے کر اس علاقے سے نکلنے کے لئے تیار ہیں آپ بس ہمیں ماریں نہیں۔
میں اعتماد کے مسئلے کی طرف اشارہ کررہا ہوں؛ جب یہ تکفیری جو براہ راست یہودی ریاست کے ساتھ کام کرتے تھے اور ان سے تنخواہیں لیتے تھے، کہتے تھے کہ کیا ضمانت ہے کہ ہم یہاں سے نکلیں اور شامی افواج ہمیں پیچھے سے نشانہ نہ بنائیں؟ پہلی مرتبہ جب یہ کام انجام پا رہا تھا ہم نے اقوام متحدہ کے ذریعے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیسی ضمانت درکار ہے؟ تو کہنے لگے:
اگر ایرانی عسکری مشیران یا حزب اللہ ضمانت دیں کہ شامی افواج ہمیں نشانہ نہیں بنائیں گے تو ہم علاقہ تحویل دینے کے لئے تیار ہیں۔
دیکھئے یہ وہی لوگ ہیں جو حزب اللہ کے مجاہدین اور ہمارے مدافعین حرم کا سر قلم کرنے والی تنظیمیں ہیں لیکن ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ یہ تھا اور ان کا ہم پر اعتماد تھا کہ یہ لوگ مرد ہیں، جوانمرد ہیں، مسلمان ہیں اور ان کے قول پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے”۔ یہی لوگ جو ہمارے ساتھ بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ہمیں امریکیوں پر بھروسہ نہیں ہے”۔ تاہم یہ لوگ آشکارا بیان بھی کرتے ہیں کہ ہم آپ کی طرح امریکیوں کو نہ” نہیں کہہ سکتے۔
کہتے ہیں: آپ نے امریکہ کو نہ” کہا اور انقلاب بپا کیا اور پوری قوت کے ساتھ ڈٹ گئے لیکن سعودی عرب میں ہمارا نظام کچھ اس طرح سے ہے کہ ہم انہیں نہ” نہیں کہہ سکتے، اور ساتھ افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں؛ لیکن درحقیقت امریکیوں پر اعتماد بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں مسلسل یہ احساس رہتا ہے کہ جو کچھ عرب دنیا کے راہنماؤں کے ساتھ ہؤا اور وہ زوال پذیر ہوئے اور ان کے ملکوں میں تبدیلیاں آئیں، یہی کچھ سعودی عرب میں ہمارے ساتھ کسی بھی لمحے دہرایا جاسکتا ہے۔
یہ واقعہ کیونکر پیش آیا کہ علی عبداللہ صالح یمن میں کسی وقت انصار اللہ کے ساتھ متحد ہوئے، اور بعد میں غداری پر اتر آئے اور آخرکار ان حالات سے دوچار ہوئے۔
یمن میں علی عبداللہ صالح ایک تدان کھلاڑی تھے اور حکمرانی کو خوب سیکھ چکے تھے۔ یمن میں علی عبداللہ صالح سے یہ جملہ نقل کیا جاتا ہے کہ: یمن میں حکمرانی ایک سات سروں والے سانپ کے سر پر چلنے کے مترادف ہے اور آپ کو ہر لمحے خیال رکھنا پڑتا تھا کہ سانپ کے کسی ایک سر کی گزیدگی آپ کو اوپر سے نیچے نہ پھینک دے۔
سعودیوں کا خیال تھا کہ علی عبداللہ صالح کو پیسہ دے کر یمن کو سعودی عرب کے پچھواڑے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں کے لوگ سعودی عرب سے اس قدر نفرت کیوں کرنے لگے؟ اور کیا ہؤا کہ علی عبداللہ صالح ـ جنہوں نے اربوں ڈالر سعودی عرب سے لے لئے اور عوام کے لئے خرچ کرنے کی بجائے بیرونی بینکوں میں رکھ لئے ـ اچانک فیصلہ کرتے ہیں کہ سعودی عرب سے علیحدگی اختیار کرکے انصار اللہ کے حلیف کے طور پر کردار ادا کریں؟
صالح نے دیکھا کہ انصار اللہ نامی ایک طاقتور ی اور معاشرتی قوت یمن میں موجود ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ انصار اللہ پورے یمن پر تسلط رکھتی ہے یا پورے یمن کو اپنے لئے چاہتی ہے؛ نہیں ایسا نہیں ہے۔ کہنا چاہتا ہوں کہ انصاراللہ کی جڑیں یمنی معاشرے میں بہت گہری ہیں اور ایک حقیقی یمنی قوت ہے اور آج سعودی جارحیت کے آگے کامیاب مزاحمت کے نتیجے میں ایک مرکزی قوت میں بدل گئی ہے جس کے یمن میں بہت سارے متحدین اور حلفاء ہیں؛ یمن کی کمیونسٹ پارٹی سے لے کر مختلف دینی اور قومی جماعتیں انصار اللہ کے ساتھ ہیں اور انصار اللہ ایک اہم طاقت بن چکی ہے۔
علی عبداللہ صالح کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا، اہم تھا۔ کل تک سوچ رہے تھے کہ اصل قوت سعودی عرب ہے لیکن کل سمجھ چکے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ طاقت یہاں انصاراللہ اور اس کی حلیف جماعتوں کے پاس ہے۔ دوسری طرف سے سعودی عرب کے برتاؤ سے بھی نالاں تھے چنانچہ انھوں نے سوچ لیا کہ انہیں عمر کے اس آخری حصے میں انصار اللہ کی طرف مائل ہونا چاہئے، اسی میں بہتری ہے۔
لیکن کچھ عرصہ گذرجانے کے بعد انہیں بڑی رقوم کی پیشکش ہوئی اور وعدہ دیا گیا کہ ان کے بیٹے کو یمن کا صدر بنایا جائے گا، اور وہ خود یمن کے مستقبل میں اہم اور مرکزی رہنما کے طور پر کردار ادا کرسکیں گے۔ سعودیوں نے کہا: ہم نے کئی مرتبہ بڑی کاروائیاں کرکے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرنے اور انصار اللہ کو نکال باہر کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے، آپ (علی عبداللہ صالح) اندر سے کاروائی کریں، صنعا کے نظام کو درہم برہم کریں، خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کریں تاکہ دارالحکومت انصار اللہ کے ہاتھ سے نکل جائے اور بعد میں ہماری افواج داخل ہوجائے!
علی عبداللہ صالح نے دھوکہ کھایا۔ وہ خود زیدی شیعہ تھے اور ایک زمانے میں تاکتیکی حکمت عملی کے تحت انصاراللہ کے قریب گئے اور انصاراللہ کا طے شدہ پروگرام بھی یہی ہے کہ یمن کی تمام جماعتوں کے ساتھ کام کرے۔ یعنی اگر اسی وقت عبدربہ منصور کی مستعفی حکومت کہہ دے کہ ہم انصار اللہ کے ساتھ ملکی آئین اور ی مفاہمت کے دائرے میں کام کرنا چاہتے ہیں تو انصاراللہ نہ” نہیں کہے گی اور کہے گی کہ آجائیں بیٹھتے ہیں، مذاکرہ کرتے ہیں ۔۔ یہ انصار اللہ کی وسیع النظری ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ یمن یمنیوں کے لئے ہے۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: ڈاکٹر امیر عبد اللٰھیان کے ساتھ یمن کے موضوع پر اہم گفتگو:
س: بات کا آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ امریکیوں نے یمن میں انصار اللہ کے مجاہدین کی میزائل قوت کے سلسلے میں ایک نفسیاتی جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ میزائل انصار اللہ کو ایران نے بطور تحفہ دے دیئے ہیں تاکہ سعودی عرب کو نشانہ بنا دے۔ بعض اوقات وہ کچھ تصاویر بھی دکھاتے ہیں اور حال ہی میں نیتن یاہو نے میونخ اجلاس میں ایک ڈرون کا ٹکڑا لہراتے ہوئے دعوی کیا کہ یہ ایرانیوں کے لئے ہے” اس کے پس پردہ منظرنامہ کیا ہے؟
ج: حقیقت یہ ہے کہ یمن کے مسئلے میں، ہم انصاراللہ کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں۔ ہم انصار اللہ کے ساتھ اس لئے رابطے میں ہیں کہ وہ یمنی عوام کے حقوق کے حصول اور امریکہ اور یہودی ریاست کی غلط پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ی جماعت اور ایک عوامی تحریک کے طور پر اہم کردار ادا کررہی ہے؛ ہم ان کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ رابطے میں ہیں، یہ ایسی حقیقت ہے جو کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
لیکن یہ جو دعوی کیا جارہا ہے کہ ہم ان کو میزائل دے رہے ہیں، تو میں یہاں ایک نکتہ بیان کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ: جس وقت جناب اسماعیل ولد الشیخ کو یمن میں اقوام متحدہ کے ایلچی کے طور پر تعینات کیا گیا، میں نے تہران میں اور اس کے دو ہفتے بعد برس میں ان کے ساتھ ملاقات کی۔ اسی وقت سعودی دعوی کررہے تھے کہ ایران انصار اللہ کو ہتھیار فراہم کررہا ہے۔
ولد الشیخ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا: میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں اور بعد میں آپ اس کا جواب دیں۔ اور انھوں نے جو واقعہ سنایا وہ یوں تھا کہ چند سال قبل میں اقوام متحدہ کے غذائی پروگرام کے نمائندے کے طور پر یمن میں تعینات تھا اور میں اس وقت اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یمن میں ہر شہری کے مقابلے میں چار ہتھیار پائے جاتے ہیں” یعنی آبادی: ۲۳۸۳۳۳۷۶ افراد، ہتھیاروں کی تعداد: ۹۵۳۳۳۵۰۴۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم یمن کے زمینی حقائق کی رو سے ایک مثلث دیکھ رہے ہیں جس کا ایک بازو امریکہ، دوسرا بازو یہودی ریاست اور تیسرا بازو ـ جس نے اپنی دولت کو بھی اور اپنی عزت و آبرو کو بھی اس بساط پر ڈال دیا ہے ـ سعودی عرب ہے۔
میرا خیال ہے کہ سعودی عرب یہودی لابی کی منصوبہ بندی کے تحت شروع ہونے والے ایک خطرناک کھیل میں الجھا ہؤا ہے۔ میں سعودی حکام اور علاقے کے ممالک کے نمائندوں سے اپنی ملاقاتوں میں ـ جو آج تک جاری ہیں ـ اپنی تشویش ظاہر کرتا رہا ہوں کہ یہودی ریاست کا منصوبہ یہ ہے کہ علاقے کے ممالک کو تقسیم در تقسیم کردے اور اس یہودی منصوبے میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔
عرب دنیا کے مفکرین، صاحبان نقد و نظر اور تدان ـ جو کہ عرب معاشروں کے منورالفکر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ـ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اپنے غلط اندازوں کی وجہ سے ایسے جال میں پھنس چکا ہے جو اس ملک کے مستقبل کو خطرات سے دوچار کررہا ہے، اور یہ مغربی ایشیا اور عالم اسلام کے ایک ملک کے طور پر مستقبل میں مزید بحرانوں اور بالآخر تقسیم کے خطرے کا شکار ہوسکتا ہے۔
سوال: سعودی عرب طویل عرصے سے یمن میں الجھا ہؤا ہے، کیا وہ یمن کا مسئلہ ختم نہیں کرنا چاہتا یا پھر ایسا کرنے سے عاجز ہے؟
جواب: میرا تصور یہ ہے کہ سعودی عرب یمن میں ایک بہت بڑی دلدل میں دھنسا ہؤا ہے؛ یمن پر سعودی عرب کی ٹھونسی ہوئی جنگ کا تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا تھا اور جناب عادل الجبیر کی وزارت خارجہ کے وزیر خارجہ بننے کا بھی تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا تھا کہ میں نے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے جدہ کے دورے پر تھا۔ وہاں میری ملاقات عادل الجبیر سے ہوئی تو میں نے ان سے یہی کہا کہ تم غلطی کے مرتکب ہوچکے ہو، اور یمن کے بحران کا حل ی ہی ہے”۔ الجبیر نے غصے کی حالت میں کہا: دیکھ لوگے کہ ہم تین مہینوں سے بھی کم عرصے میں انصار اللہ کو شمالی یمن میں نیست و نابود کریں گے و۔۔۔” میں کھسیانی سی ہنسی ہنسا اور مسکرا کر کہا: میرا نہیں خیال۔۔۔” لیکن آپ کہتے ہیں تو آنے والے دنوں کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں بہت سے وہ لوگ جو بہ زعم خویش یمن پر حملے کے حوالے سے عقلیت کے راستے پر گامزن تھے، سوچ رہے تھے کہ سعودی زیادہ سے زیادہ تین مہینوں کے عرصے میں یمن میں قطعی طور پر کامیاب ہوجائے گا اور یمن کا بحران اسی انداز سے ختم ہوگا جس طرح کہ سعودی عرب کی آرزو ہے۔
سعودیوں کو امریکہ سے بہت توقعات تھیں۔ ایک بار میں نے علاقے کے ایک عسکری ماہر سے کہا: میں فوجی نہیں ہوں اور فوجی مسائل کا زیادہ ادراک نہیں رکھتا اور میرا جنگی تجربہ دفاع مقدس کے دور میں ایک رضاکار بسیجی کا تجربہ ہی ہے، یہ جو امریکی کہہ رہے ہیں کہ یمن کی جنگ میں سعودیوں کی مدد کررہے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے تو اس نے کہا: امریکی کہتے ہیں کہ ہم سیارچوں کے ذریعے یمن میں سعودی کاروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بہت بڑی قیمت وصول کرکے اپنے پیشرفتہ ترین جنگی طیارے سعودیوں کو فراہم کرتا ہے لیکن امریکہ کی یہودی ـ صہیونی لابیوں اور امریکی سلامتی کے اداروں کے درمیان مسلسل تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر سعودی عرب میں بھی اچانک مصر کی طرح کا انقلاب آجائے اور حالات تبدیل ہوجائیں تو یہ جنگی سازوسامان کسی طور پر بھی یہودی ریاست کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ چنانچہ امریکہ نے جدیدترین طیارے تو سعودیوں کو دے دیئے ہیں لیکن انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے:
۱۔ یہ طیارے جب صنعا پر بمباری کے لئے جاتے ہیں تو واپسی میں یمن کی فضائی حدود سے نکلنے سے پہلے ہی ان جدید طیاروں کا ایندھن ختم ہوجاتا ہے لہذا انہیں یمن سے نکلنے سے قبل ہی ایندھن وصول کرنا پڑتا ہے۔ ایندھن لینے کی کاروائی کے لئے ایک خاص قسم کا پٹرول چاہئے جو امریکیوں نے سعودیوں کو فراہم نہیں کیا ہے، اور بحر ہند میں اس قسم کے ایندھن کا حامل ایک جہاز تعینات ہے جس سے انتقال پذیر ایندھن بھرنے کی صورت میں ان طیاروں کو ایندھن فراہم کیا جاتا ہے لیکن جو طیارے یہ ایندھن اس جہاز سے اٹھا کر اس طیاروں کو منتقل کرتے ہیں، بھی سعودی عرب کو فراہم نہیں کئے گئے ہیں اور وہ روش نیز وسائل امریکی ایندھن رساں طیاروں کے پاس ہیں۔ پس ان طیاروں کا ایندھن اور اس کی منتقلی کا کام ہر لحاظ سے اور ۱۰۰ فیصد امریکیوں نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
۲۔ یہ طیارے بہت جدید ہیں اور جب یہ مثلا صنعا میں کسی ہدف کو نشانہ چاہیں تو اس سے پہلے ایک ڈرون پرواز کرتا ہے، علاقے کو دیکھ لیتا ہے اور ریکی کرتا ہے، مختصات کو سعودی فضائی کمانڈ کے لئے بھیجتا ہے، کمانڈ اسے طیارے کے پائلٹ کے لئے بھیجتی ہے جس کے بعد وہ جاکر کسی اسکول، پانی کی کسی ٹینکی، کسی چھاؤنی یا کسی بازار کو نشانہ بنانے چلا جاتا ہے۔ یہ ڈرون بھی سعودیوں کے پاس نہیں ہیں؛ چنانچہ یہ جو امریکی کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ میں لاجیسٹک اور معلومات کے حوالے سے سعودیوں کی مدد کررہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے جدید ترین ہتھیار سعودیوں کو فروخت کئے ہیں لیکن وہ ان ہتھیاروں کے استعمال کا اختیار نہیں رکھتے۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: امریکی فلم ’’خوبصورتی اور جانور‘‘ (Beauty and the Beast) بل کانڈن (Bill Condon) کی ہدایت میں ڈسنی کمپنی کے ذریعے بنائی گئی یہ فلم رواں سال( ۲۰۱۷) کے شروع میں رلیز ہوئی۔ فلم دیکھنے سے قبل عام انسان اس فلم سے جو توقع رکھتا ہے دیکھنے کے بعد وہ اس توقع تک نہیں پہنچ پاتا اور ایک احساس مایوسی اس میں پیدا ہو جاتا ہے۔ اس فلم سے سوائے اس بات کے کہ انسان کے حوصلے پست ہوں کچھ بھی انسان کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے قبل ڈسنی کمپنی کی فلم ’’جنگل بوک‘‘ (The Jungle Book) ایک بہترین اور عمدہ اثر تھا لیکن ’’پیٹ کے اژدھے‘‘ (Pete’s Dragon) فلم نے دوبارہ اس کمپنی سے مایوسی پیدا کر دی۔
البتہ ’’خوبصورتی اور جانور‘‘ ’’جنگل بوک‘‘ کے سلسلے ہی کی ایک فلم ہے۔ اس فلم میں رائٹر نے نہ صرف اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کی کوشش کی بلکہ عجیب و غریب انداز میں معرکہ سر کرنے کی کوشش کی ہے۔
مغربی طرز زندگی ہمیشہ اس بات کی کوشش میں ہے کہ لوگوں کو زندگی کی مشکلات اور سختیاں برداشت کرنے کے بجائے انہیں مشکلات کو نظر انداز کر کے جینا سکھائے۔ در حقیقت خود پرستی اور اخلاقی فقر، اجتماعی زندگی کی وہ مشکلات ہیں جو ڈسنی کمپنی کی فملوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔
علاوہ از ایں، فمینیزم وہ اہم ترین عنصر ہے جو اس طرح کی فلموں میں باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مغربی فلم انڈسٹری مرد و عورت کے حقوق کے مساوی ہونے کے مسئلے کو اس طرح سے بیان کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ یہ دو موجود اگر چہ جسمانی لحاظ سے مختلف ہیں لیکن سماج اور معاشرے میں ان کے حقوق کے درمیان کوئی فرق اور امتیاز نہیں۔ اس طرز تفکر کا نتیجہ یہ ہے کہ عورت اپنی تمام نزاکتوں اور مہربانیوں جو اس کی فطرت میں رچی بسی ہیں کو درکنار رکھ کے مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کی مشکلات اور کٹھن راہوں میں دوڑ لگائے۔

 


گزشتہ سے پیوستہ

خیبر: کیا کورونا وائرس کی داستان کا آخری زمانے کے واقعات سے کوئی تعلق ہے؟
جواب: میں اپنے تمام مخاطبین سے عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنی شرعی تکلیف پر عمل کرنا ہے۔ امام خمینی نے فرمایا: ہماری ذمہ داری ہے کہ ظہور کے لیے زمین فراہم کریں۔ میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ جب تک زمین ظہور کے لیے فراہم نہیں ہو گی، علاقہ پرامن نہیں ہو گا امام زمانہ سے ظہور کا تقاضہ کرنا غیرمعقول چیز ہے۔
ظہور کے تقاضے کا لازمہ یہ ہے کہ ہم نے تمام شرائط مہیا کیے ہوئے ہوں سب تیاریاں کر رکھی ہوں تو امام تشریف لائیں، علاقے کے پرامن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ علاقے پر جن اجنبی طاقتوں کا تسلط ہے ان سے علاقے کو واپس لیا جائے۔ اس جد و جہد کو امام خمینی (رہ) نے شروع کیا اور آپ نے یہ واضح کیا کہ امریکہ اوراسرائیل ہیں جو امام کے ظہور میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
ان دشمنوں کے خلاف جد و جہد امام نے شروع کی اور چالیس سال سے اسلامی جمہوریہ ایران اس جد و جہد کو جاری رکھے ہوئے ہے اور آج ہم دیکھ رہے کہ دشمن میدان جنگ میں اس قدر شکست سے دوچار ہو چکا ہے کہ اب اس طرح کے وایرس پیدا کر کے دنیا کی دوتہائی آبادی کو نابود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن کس قدر کمزور اور ناتوان ہو چکا ہے۔
وہ روایتیں جو ظہور سے پہلے کے زمانے کے بارے میں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے طاعون کی بیماری سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔ ممکن ہے یہی بیماری مراد ہو۔ یا یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں ایک بہت بڑا قتل عام ہو گا۔ لیکن جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس طرح کی تمام روایتیں وہ ہیں جو سند کے لحاظ سے زیادہ قابل یقین نہیں ہیں۔ یہ تمام امور اللہ کی مرضی و منشا کے مطابق ہیں۔ لہذا ہماری توبہ و استغفار اور ہمارے اعمال و کردار میں تبدیلی ان امور میں تبدیلی کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ «إِنَّ اللَّهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِم.
جو چیز اس وقت روئے زمین پر رونما ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ظہور کے مخالفین دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آج یہ وائرس ہماری نابودی کے لیے تیار کیا گیا ہے، ٹھیک ہے اس نے ہمارے بہت سارے قیمتی انسانوں کو موت کا شکار بنا دیا، ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچایا، «الشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ» شیطان کا کام ہے فقر سے ڈرانا، مفلسی سے ڈرانا، لوگوں کے اندر نفسیاتی طور پر خوف و ہراس پیدا کر دینا، اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سارے اندرونی عوامل بھی اسی موج میں بہہ رہے ہیں اور عوام کو ان کی معیشت سے خوفزدہ کر رہے ہیں۔
کورونا وایرس نے یقینا ہماری معیشت پر کاری ضربت لگائی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہمدردی، ہمدلی اور انفاق کی روح بھی پیدا کی ہے۔ انشاء اللہ ایران سے اس وائرس کے خاتمہ کے بعد ملک کی معیشت دوبارہ ترقی کرے گی ہم کوئی کمزور قوم نہیں ہیں، امام زمانہ کا سایہ ہمارے سروں پر ہے۔
لیکن یاد رکھیں اس وباء سے صرف ہم نہیں، بلکہ پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوئی ہے، آپ علاقے کے ممالک کو ہی دیکھ لیں سعودی عرب جس کی معیشت کا سارا دارومدار تیل اور حج و عمرہ پر تھا آج دونوں صفر ہو چکے ہیں، تیل ۲۰ ڈالر پر پہنچ چکا ہے اور حج و عمرہ مکمل طور پر بند۔ جبکہ سعودی عرب دوسری طرف یمن جنگ کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، عرب امارات کو دیکھ لیں، دبئی کی سٹاک مارکٹ کریش ہو چکی ہے، ترکی کا ایئرپورٹ جو اس ملک کے لیے سب بڑا درآمد کا ذریعہ تھا خالی ہو چکا ہے۔
تو دیکھیں وہ لوگ جو ایران کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں تھے آج خود بھی سب کے سب ہم سے بدتر صورتحال میں گرفتار ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ «وَ مَکَرُوا وَ مَکَرَ اللَّهُ وَ اللَّهُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ»۔
خداوند متعال دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تم دشمن کی طرف سے ایجاد کردہ مشکلات سے گھبرانا نہیں، کمزور نہیں پڑنا، «وَ لا تَهِنُوا فِی ابْتِغاءِ الْقَوْمِ» مشکلات بہت تمہارے راستے میں آئیں گی مشکلات سے خوفزدہ نہیں ہونا، دشمن نے جو تمہارے لیے گڈھا کھودا ہے وہ خود بھی اس میں گرے گا۔ «فَإِنَّهُمْ یَأْلَمُونَ کَما تَأْلَمُون» مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ وائرس ہمارے لیے بنایا ہے وہ خود بھی شدت سے اس میں گرفتار ہوں گے ہم اللہ کی مدد اور امام زمانہ کے لطف و کرم سے اس پریشانی کو برداشت کر لیں گے لیکن دشمن جب اس میں گرے گا تو بری طرح متاثر ہو گا وہ برداشت نہیں کر پائے گا اس لیے کہ ہم مورچوں میں بیٹھے ہیں اور دشمن شیشے کے مکانوں میں بیٹھا ہے۔

 


گزشتہ سے پیوستہ
خیبر: ایران میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد امریکی صہیونی میڈیا کے ذریعے جو نفسیاتی جنگ کا آغاز ہوا اس کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
جواب؛ وہ چیز جو امریکہ کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلائے جانے کو واضح تر کرتی ہے وہ نفسیاتی جنگ ہے جو اس وائرس کے حوالے سے پوری دنیا منجملہ ایران میں شروع ہو چکی ہے۔ میں اس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا، جب یہ وائرس چین میں شروع ہوا تو ہمارے ملک کے لوگوں کی ذہنیت یہ تھی کہ کورونا وائرس ، چمگادڑ کے ذریعے چینیوں میں منتقل ہوا ہے۔
لیکن کیا چین میں یہ چیز ثابت ہوئی؟ جو افواہیں ’ووہان‘ شہر میں اس وائرس کے پھیلتے وقت پھیلیں وہ یہ تھیں کہ اس وائرس سے متاثرہ افراد وہ لوگ تھے جو سمندری خوراک کھاتے تھے لہذا یہ احتمال پایا جا رہا ہے کہ سمندری موجودات کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا ہو۔ لیکن جب ڈاکٹروں نے تحقیقات کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا وہ لوگ بھی اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں جنہوں نے نہ ہی سمندری غذائیں کھائی ہیں اور نہ ان لوگوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا جو اس بیماری میں مبتلا تھے۔
دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ یہ وائرس چمگادڑ کے سوپ سے پھیلا ہے اس مفروضہ پر بھی تحقیقات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ سوپ تو پکا کر استعمال کیا جاتا ہے اور پکنے کے بعد کسی وائرس کے باقی رہنے کا احتمال بہت کم ہے۔ لیکن یہ احتمالات میڈیا میں اس طریقے سے بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے کہ گویا سوفیصد یہی دلائل ہیں۔ جبکہ ابھی تک خود چین کے اندر بھی اس وائرس کے وجود میں آنے کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ہے۔
دوسری جانب ایران میں ٹھیک پارلیمانی انتخابات کی پچھلی رات قم میں اس کے پھیلے جانے کا اعلان کر دیا گیا اور کہا گیا کہ قم ہے جو اس وائرس کو پورے ایران میں پھیلا رہا ہے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وائرس کا اصلی مرکز چین ہے قم نہیں۔ لیکن قم کی بات آئی تو پوری دنیا کا میڈیا چین کو بھول کر قم کے پیچھے لگ گیا!
کچھ ہی دیر میں یہ خبریں بھی پھیلائی جانے لگیں کہ قم میں چونکہ چین کے طالب علم زیر تعلیم ہیں لہذا ان کے ذریعے یہ وائرس قم میں پھیلا ہے۔ حالانکہ جب سے چین میں کورونا وائرس پھیلا تھا چین کا ایک بھی طالب علم اپنے ملک میں نہیں گیا اور نہ ہی کوئی طالب علم وہاں سے اس دوران قم آیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قم میں تقریبا ۱۳ لاکھ کی آبادی ہے۔ لیکن سارا نزلہ حوزہ علمیہ پر ڈالا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ قم کے طالب علم اور علماء ہیں جو اس وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنے ہیں۔ حالانکہ جس مرکز میں یہ چینی طالب علم زیر تعلیم تھے وہاں کا کوئی ایک بھی عالم دین یا طالب علم متاثر نہیں ہوا۔
اس طرح کی نفسیاتی جنگ جو اس وائرس کے حوالے سے شروع کی گئی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وائرس کا بنانا اور اس کا پھیلانا اور پھر اس کے پیچھے میڈیا کو منظم طریقے سے استعمال کرنا سب طے شدہ منصوبہ تھا۔
امریکہ کو یہ معلوم ہے کہ ایران میں صرف قم ہے جو امریکہ کے خلاف جنگ میں ڈٹا ہوا ہے۔ قم چونکہ حوزہ علمیہ کا مرکز ہے۔ آج جس فکر نے امریکہ اور اسرائیل کو مفلوج کیا ہے وہ انقلابی فکر اور سوچ ہے اور انقلابی فکر و سوچ کا مرکز شہر قم ہے جس انقلابی فکر کی بنیاد امام خمینی نے اسی شہر میں رکھی۔ لہذا دشمن کی نظر میں اس شہر کو منہدم ہونا چاہیے۔
دشمنوں کے لیے یہ اہم نہیں کہ اس مرکز کو مٹانے کے لیے کتنا خرچہ کرنا پڑے گا۔ اگر یہ وائرس دشمنوں نے بنایا ہو گا وہ اپنے حریف کو میدان سے ہٹانے کے لیے پوری انسانیت کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔ لہذا جو معلومات فی الحال میسر ہیں ان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وائرس کو بنانے والا امریکہ اور وائرس پھیلانے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی جنگ چھیڑنے والا بھی امریکہ ہے۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: جب تھامس ((Thomas (Dylan O’Brien) نوجوانوں کے ایک ٹولے کے ساتھ ایک خوفناک اور ڈراؤنے علاقے میں نیند سے اٹھتا ہے تو باہر کی دنیا سے کچھ بھی اسے یاد نہیں ہوتا سوائے ایک عجیب و غریب تنظیم کے بارے میں خواب کے جس کا نام W.C.K.D ہوتا ہے اور پھر درندہ مکڑوں کے زہر سے خودکشی کے بعد اسے سب کچھ یاد آتا ہے۔
تھامس کو امید ہوتی ہے کہ وہ اس جگہ پر آنے اور پھر وہاں سے بھاگنے کا سبب معلوم کرے۔ تھامس اپنے گروہ کے ہمراہ آخر کار مجبور ہوتا ہے اس جگہ سے بھاگنے کے لیے کوئی راہ فرار تلاش کرے۔ لیکن ان لوگوں کو بھولبلییوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جس کے دونوں طرف اونچے اونچے پہاڑ ہوتے ہیں اور ان کے درمیان سے گزرنے کے دروازے کبھی کبھی کھلتے ہیں۔
اس فلم کے ڈائریکٹر ’’وس بال‘‘(Wes Ball) نے کوشش کی ہے کہ اس فلم کے ذریعے ناظرین کو یہ یقین دلائے کہ مشکلات کو برداشت کر لینا، یا مشکلات کو بھول جانا کسی مسئلہ کا راہ حل نہیں ہے بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور مشکلات کے سامنے اپنی ہار مان کر جھک نہ جائے۔
اس فلم میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ کچھ ایسے افراد ہیں جو کسی مستقل ارادے کے مالک نہیں ہوتے ان کو اگر میدان میں ٹکا کر رکھا جائے تو بہادر نکلیں گے ورنہ ممکن ہے فرار ہوتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے جائیں اور قربانی کا بکرہ بن جائیں۔
یہ فلم در حقیقت مغربی زندگی کی حیراں و سرگرداں بھوبلییوں کی عکاسی کرتی ہے کہ جہاں پر ہزار طرح کے پیچ و خم رکھنے والے راستے سے گزرنے کے بعد بھی انسان ایک بڑے بھولبلییاں میں داخل ہو جاتا ہے کہ جس سے نہ صرف اس کو نجات نہیں ملتی بلکہ اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ مشکلات سے خود کو چھٹکارا دلائے ختم نہ ہونے والے مشکلات اس کے دامن گیر ہو جاتی ہیں۔
مغرب کی دنیا میں جوانوں کی زندگی اکثر و بیشتر انہیں بھولبلییوں کا شکار ہے جن سے وہ کتنا بھی بھاگ کر باہر نکلنے کی کوشش کریں نہیں نکل پاتے۔ اور آخر کار خودکشی کے ذریعے خود کو مشکلات سے نجات دلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

 


خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: ڈارن آرونوفسکی (Darren Aronofsky) کی ہدایتکاری میں بنائی گئی فلم نوح (Noah) جو دوہزار چودہ(۲۰۱۴) میں ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں رلیز ہوئی اس میں جناب نوح علیہ السلام کی زندگی کے ایک اہم گوشہ یعنی مسئلہ نبوت کو منعکس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جناب نوح (ع) کی کہانی حقیقت پر مبنی ایک ایسی داستان ہے جو مختلف ادیان و مکاتب فکر کے نزدیک قابل قبول ہے یعنی کوئی بھی الہی دین اس تاریخی واقعہ کا انکار نہیں کرتا۔ اس حوالے سے ہالی وڈ کے فلمی اداکاروں اور صہیونی سرمایہ داروں نے اس عالمی تاریخی حقیقت کو اپنی مرضی اور منشاء سے فلمی صورت میں دنیا والوں کے لیے پیش کیا ہے۔ ہالی وڈ کے اداکاروں نے اس پیغمبر الہی پر نازل ہونے والی وحی اور ان کے الہی مکاشفوں کو صرف ایک خواب کی حد تک گرا کر پیش کیا ہے ایسی خواب جو انسان کو کبھی کبھی صرف کوئی دوا کھانے سے بھی دکھنے لگتی ہے۔ اس فلم میں جناب نوح کو امت کے رہبر اور الہی نمائندے کے بجائے صرف اپنے گھر والوں کو نجات دلانے والے کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے اور امت کی نسبت گویا وہ اتنے لاپرواہ تھے کہ بے سہارا لوگوں کو بھی ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔
فلم نوح کی کہانی
یہ فلم یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ’’لامخ‘‘( جناب نوح کے والد) سانپ کی کھال کو اپنے ہاتھوں کے اردگرد لپیٹتے ہیں اور اپنی انگلی کو جناب نوح کی انگلی کے قریب کرتے ہیں تاکہ نور نبوت کو ان کے اندر منتقل کریں۔ یاد رہے کہ توریت کی نگاہ میں سانپ، شیطان کی علامت ہے۔ جونہی جناب نوح کے باپ لامخ نور نبوت کو جناب نوح میں منتقل کرنا چاہتے ہیں تو بادشاہ ’’ٹوبل قابیل‘‘ اس راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا اور لامخ کو قتل کر دیتا ہے۔
فلم کے اس حصے کا مقصد یہ ہے کہ مخاطب میں اس نقطہ نظر کو پروان چڑھایا جائے کہ جناب نوح کی نبوت صرف خیالی نبوت تھی اور وہ حقیقت میں معاذ اللہ نبی نہیں تھے! اور اس کے بعد فلم کی باقی کہانی اسی ایک نکتے سے تعلق رکھتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہر نبی کی نبوت پر سب سے اہم دلیل اس کا معجزہ ہوا کرتی ہے جس کا اس پوری فلم میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ اس حال میں ہے کہ جناب نوح کے دادا متوشلح معجزے کے مالک تھے اور انہوں نے معجزے سے ایلا (جناب نوح کے بیٹے سام کی بیوی) کے بانجھ ہونے کی مشکل کو حل کر دیا تھا۔
اس فلم میں جس ’’نوح‘‘ کو پیش کیا گیا ہے وہ صرف عالم خواب میں کچھ چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جنہیں سمجھنے کے لیے اپنے داد متوشلح سے مدد لینا پڑتی ہے! یہ طرز تفکر کتاب مقدس کے مضامین اور مطالب کے ساتھ بھی تضاد رکھتا ہے۔
مختصر یہ کہ الہی رسولوں کے سلسلے میں اس طرح کی ہلکی پھلکی، بے بنیاد اور سیکولر دید اور نظر رکھنا، انبیاء کی حقیقی تاریخ میں تحریف ہے، پیغمبروں کی عصمت پر سوالیہ نشان اٹھانا ہے، رسولوں کا خداوند عالم سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ ہونے اور وحی اور شہودی نگاہ کے بے معنی ہونے کا ثابت کرتا ہے یہ وہ مشترکہ مفاہیم ہیں جو انبیائے الہی کے حوالے سے بنائی گئی ہالی وڈ کی اکثر فلموں میں نظر آتے ہیں۔
یہاں پر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ ہالی وڈ کے مورخین جیسے ’’نیل گویلر‘‘ جو یہودی ہیں اس بات کے قائل ہیں کہ ہالی وڈ انڈسٹری اسّی فیصد سے زیادہ سیکولر اور صہیونی کمپنیوں کے زیر اثر ہے جو خود دین یہود کی تعلیمات سے بھی وں دور ہے۔
ڈارن آرونوفسکی کی منحرف کرنے والی فلم نوح کو مختلف ممالک میں دینداروں اور مسلمانوں کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ بعض اسلامی ممالک جیسے پاکستان، قطر، عرب امارات، بحرین، دیگر خلیجی ممالک ملیشیا، انڈونیشیا اور مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ممالک میں اس فلم کی نمائش پر قدغن لگا دی گئی۔ مصر کی الازہر یونیورسٹی نے بھی ایک بیان جاری کر کے فلم ’’نوح‘‘ کو اسلامی مخالف قرار دیا اور اس ملک میں اسے دکھلانے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بین الاقوامی فلمی ڈائریکٹر مجید مجیدی جنہوں نے ماضی قریب میں ’’محمد‘‘ نامی فلم بنائی اس حوالے سے کہتے ہیں: ’’ آج ہالی وڈ اور صہیونیت، میڈیا خاص طور پر فلمی میدان میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں اور حتی دینی موضوعات کی بھی اپنی مرضی سے منظر کشی کرتے ہیں کہ جس کی واضح مثال تازہ بنائی گئی فلم ’’جناب نوح‘‘ ہے۔ جب میں نے یہ فلم دیکھی تو میرا بدن لرز گیا۔ سچ میں پیغمبر خدا کو کیسا دکھلایا جا رہا ہے؟ اس عظیم واقع کے تئیں کتنی سطحی، تخریب کارانہ اور تعصب آمیز نگاہ کی گئی ہے کہ یقینا انسان افسوس کرتا ہے‘‘۔

 


تبلیغات

محل تبلیغات شما

آخرین مطالب

محل تبلیغات شما محل تبلیغات شما

آخرین وبلاگ ها

آخرین جستجو ها

مقالات سئو آموزش زبان چيني کتاب و جزوه Tanya sina7405 Rodney کافه و کافی شاپ المفید ساعت سلامتي youmovies